ایک جملہ جو خبر کے طور پر بچپن میں اخبار میں پڑھا کرتے تھے- جب سے ٹی وی چینلز کی بھرمار ہوئی ہے تب سے بریکنگ نیوز کے نام پر یہ جملہ صبح شام کئی بار، مختلف وزراء سے سنتے ہیں- ہر مشکل سوال کے جواب میں کہا جاتا ہے کہ؛
ملک اس وقت بہت نازک صورتحال سے گزر رہا ہے۔ اس جملے کے پیچھے تفصیل جاننے سے پہلے کچھ حالات کا جائزہ لینا ضروری ہے۔فرانسیسی انقلاب عالمی تاریخ کے اہم ترین اور مشہور واقعات میں سے ایک ہے۔ 1789 سے 1799 تک جاری رہنے والے، اس کے نتیجے میں، بہت سی اور تبدیلیوں کے علاوہ، فرانس میں بادشاہت کا خاتمہ ہوا۔ اگر فرانسیسی انقلاب کے درپردہ عناصر پر نظر دوڑائی جائے تو کچھ بڑی بڑی عام سی وجوہات سامنے آتی ہیں-
لوئسXVI: انقلاب فرانس کے دوران بادشاہت کے خاتمے سے پہلے فرانس کا آخری بادشاہ تھا۔ لوئس ١٦ کی، نہایت غیر مؤثر قیادت اور سیاسی نا اہلی کسی حد تک فرانسیسی انقلاب کی وجہ بنی، حالانکہ پندرھویں صدی کے وسط سے ریاست میں بغاوت نے سر اٹھانا شروع کر دیا تھا۔ اس کی کئی وجوہات میں سے ایک سماجی عدم مساوات جو ریاستی نظام کا خاصا رہی- 1780ء کی دہائی میں فرانس کی آبادی 24 ملین 700 ہزار کے لگ بھگ تھی اور اسے تین اسٹیٹس میں تقسیم کیا گیا تھا۔ پہلی اسٹیٹ رومن کیتھولک پادریوں کی تھی، جن کی تعداد تقریباً 100,000 تھی۔ دوسری اسٹیٹ فرانسیسی اشرافیہ پر مشتمل تھی جس کی تعداد تقریباً 400,000 تھی۔ فرانس میں باقی سب؛ بشمول تاجر، وکیل، مزدور اور کسان؛ ان کا تعلق تھرڈ اسٹیٹ سے تھا، جو کہ فرانسیسی آبادی کا تقریباً 98 فیصد پر مشتمل ہے۔ تیسری اسٹیٹ کو تمام با عزت اور سیاسی طاقت کے عہدوں سے الگ کر دیا گیا تھا۔ یہ دوسرے درجات کی نظر میں حقیر ٹھہرے۔ جیسے کہ ہندو معاشرے میں شودر کا تصور ملتا ہے۔
اگر اپنی ریاست پاکستان پر نظر دوڑائی جائے تو اشرافیہ سے مراد ہر گز عام عوام نہیں بلکہ وہی بیوروکریٹس اور نظام سے چپکے لوگ ہیں جو جونک کی طرح خون چوسنے میں مشغول ہیں۔ جیسے فرانس کی آبادی کے 98 فیصد لوگ عوام کو حقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا یہی حال آج ایک عام پاکستانی کا ہے جو نہ تو شکایت کے لیے پولیس کے سامنے بے خوف ہو کر جا سکتا ہے نہ ہی انصاف کے لیے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا سکتا ہے، عمر بھر جانور کی طرح مزدوری کر کے عزت کی روٹی کما کر بچوں کے اچھے مستقبل کے خواب لے کر دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے۔
دوسری بڑی وجہ فرانسیسی انقلاب کی یہ تھی کہ عام لوگوں پر ٹیکس کا بوجھ بڑھتا جا رہا تھا، اشرافیہ اور انتہائی دولت مند افراد اپنے عہدوں کی وجہ سے تمام تر سہولتوں سے لطف اندوز ہوتے، جتنا بڑ اعہدہ اتنی ہی مراعات اور ٹیکس سے مبرا زندگی۔ نتیجہ، عوام کے کندھوں پر ان کی جیب سے کہیں زیادہ بوجھ۔ یہ صورتحال پڑھ کر ایسا نہیں لگتا کہ یہ 1780ء کی دہائی کے واقعات ہیں، ایسا لگتا ہے جیسے ایک پاکستانی کی روزمرہ کی زندگی کے حالات ہیں۔ جب سے ہوش سنبھالا ہے کچھ مخصوص خبریں ہمیشہ سے پڑھتے اور سنتے آ رہے ہیں، جیسے کہ؛
ملک تاریخ کے بدترین دور سے گزر رہا ہے!
ریاست کو نازک ترین حالات کا سامنا ہے!
وطن عزیز کو اس وقت صرف اور صرف آپ بچا سکتے ہیں!
ملکی معیشت کو بدترین صورتحال کا سامنا ہے!
ڈالر کی قیمت تاریخ کی بلند ترین سطح پر جا پہنچی!
ایسے ہی کچھ اور جملے جو بچپن سے آج تک ذرا سی ردو بدل تک کا شکار نہ ہوئے۔ نہ الفاظ بدلے نہ حالات، کیونکہ قوم سے قربانی مانگنے والے وہی مخصوص خاندان جو کئی دہائیوں سے عہدے سنبھالے ہوئے مراعات سے مستفید ہو رہے ہیں- “بلیک منی“ گورے کے دیس میں پہنچا کر وہائٹ کر لیتے ہیں اور وہ عام آدمی جو آمدنی سے زیادہ بجلی، پانی اور گیس کے بل ادا کرتے کرتے آدھا رہ جاتا ہے- اُسی کو پھر سے قربانی کے لیے ہانک لگائی جاتی ہے-
ایک اور بڑی وجہ فرانسیسی بحران کی یہ سامنے آئی کہ جنگوں کے اخراجات کی وجہ سے مالی بحران پیدا ہوا، ایک عام آدمی دو وقت کے کھانے کو ترس گیا کیونکہ بڑے عہدہ داران کی نظر میں تاریخ اس حکمران کو یا د رکھتی ہے جس کے نام پر کئی فتوحات ہوں۔ یہ وجہ شاید ریاست پاکستان میں سو فی صد نہ ہو لیکن دوسروں کے جنگوں نے ملک میں دہشت گردی کو تقویت دی۔جس کی وجہ سے پاکستان کو سیاحوں کے لیے خطرناک تک قرار دے دیا گیا۔ ایک وزیر اعظم کا تاریخی جملہ آج بھی یاد ہے کہ؛
آپ لوگ ڈرون گراتے رہیں، ہم اپنی اسمبلیوں میں شور مچاتے رہیں گے تاکہ عوام خاموش رہیں- فرانسیسی انقلاب کی کچھ اور وجوہات پر نظر ڈالی جائے توسٹرینگز کا ایک گانا ذہن میں آجاتا ہے۔
؎ میں تو دیکھوں گا، تم بھی دیکھو گے
جب روٹی سستی ہوگی اور مہنگی ہو گی جان
روٹی کی قیمت میں بیش بہا اضافہ اور اور بڑی وجہ بنی،جب جیب تنگ سے تنگ ہو جائے اور روٹی ایک لقمہ رسائی سے دور ہو جائے تو معاشرہ بدترین جرائم میں کا شکار ہو جاتا ہے- جہاں جرم کی وجہ ہوس اور دولت کا لالچ نہ ہو بلکہ گھر بیٹھے بھوکے بچے ہوں- گلی محلوں میں چھینا جھپٹی، سورج ڈھلتے ہی گھروں کی جانب دوڑ کہ کہیں کوئی اندھیرے کا فائدہ نہ اٹھا لے- ایسی ہی بہت سی خبریں اپنے ارد گرد سنائی اور دکھائی دیتی ہیں جب معلوم ہوتا کہ سڑک کے موڑ پر کسی کا موبائل چھین لیا گیا، چھوٹی سی رقم کے عوض گولی مار دی، کان سے سونے کا زیور کھینچ لیا گیا، تین بچوں کے باپ نے غربت سے تنگ آکر خود کشی کر لی، ماں نے کھانے میں زہر ملا کر بچوں سمیت خود کشی کر لی۔
ایسی قوم جو پیٹ کا جہنم نہ بھر پائے اور آخرت بھی خراب کر لے اس سے کیسی قربانی اور آخر کب تک؟، اشرافیہ مراعات چھوڑنے کو تیار نہیں، وزرا ءٹیکس دینے کو تیار نہیں اور ایک عام آدمی جو بجلی کا بل تو دیتا ہے مگر بجلی اور گیس سے دو گھڑی فائدہ نہیں اٹھا پاتا، اس کے سامنے ٹیکس کا رونا رویا جاتا ہے کہ صرف دو فیصد لوگ ٹیکس ادا کرتے ہیں اسی لیے ملک کا دیوالیہ ہونے کو ہے، ایک عام آدمی جن سہولیات سے فائدہ اٹھا بھی نہیں پاتا ان کے بھی بل ادا کر کر کے اس کی کمر دہری ہوئی جاتی ہے، اسی کی گردن پر چھری چلانے کی کوشش کی جاتی ہے-
کئی اور وجوہات میں سے فرانسیسی انقلاب کی ایک اور بڑی وجہ “فرانسیسی بادشاہت کا اسراف طرز زندگی“- ایسا نہیں لگتا کہ اپنے ارد گرد ہی کچھ خاندانوں کا ذکر ہو- مہنگے ترین ملبوسات، جوتے، زیورات اور بیرون ممالک میں عیش وعشرت کی زندگی، حکومت میں ہوں تو پاکستان اور حکومت سے باہر ہوں تو انگلستان؟ واہ رے حکمران! ایک عام آدمی زندگی کے بوجھ تلے دبا ہوا پیٹ بھر کھانے کی خواب دیکھتا ہوا جہاں سے گزر جاتا ہے اور دوسری طرف اشرافیہ اور بڑے بڑے عہدے داران مقدس گائے بنے تمام تر آسائشوں کے حقدار تو بنتے ہیں مگر ٹیکس کے نام پر ایک دھیلا نکالنے کو تیار نہیں-
خدمت کے نام پر کرپشن، لوٹ مار، اقرباء پروری، سیاسی و حکومتی عہدوں کی بندر بانٹ، اپنی زمینیں بچانے کی خاطر بند توڑ کر پانی کا رخ پھیر کر عام آدمی کو سیلاب کی نظر کرنا، اولاد کو یا تو ملک سے باہر بڑی کاروباری سلطنت کھڑی کر دینا یا پھر اپنی چھوڑی ہوئی کرسی پر بٹھا دینا، پولیس کو عوام کی حفاظت کے بجائے اپنے دروازوں پر تعینات کرنا، سرکاری گاڑیوں کو اپنے ذاتی قافلے کے طور پر استعمال کرنا، باری باری چہرے بدل کر وہی وزیر و مشیر کے درمیان جمہوریت کا کھیل کھیلنا- یہی خدمت خلق ہے تو کیا فرق ہے سولہویں اور سترھویں صدی کی دنیا میں اور آج کے پاکستان میں؟۔
ایک عام آدمی جس کی جان روٹی کے چند لقموں سے بھی سستی ہے وہ عام پاکستانی کب تک قربانی کا بکرا بنے گا؟ کیوں اب اشرافیہ سے اور عہدہ داران سے سوال نہیں کیا جاتا؟ کیوں ان کی مراعات میں کمی نہیں کی جا سکتی؟ پھٹی ہوئی جیب سے سرکار اور کیا نکلوائے گی؟۔