دولت وراثت نہیں فضل اور آزمائش

ہم جس دور میں جی رہے ہیں وہ  مال دولت کا زمانہ ہے۔ یہاں معیار علم و عمل قابلیت و اخلاق اور خیرخواہی نہیں بلکہ دولت کی کثرت ہے۔ یہاں جس کے پاس اچھی گاڑی گھر اور بنک بیلنس ہے وہ ہی عزت دار سمجھا جاتا ہے۔ یہاں جو چار پیسے کما لیتا ہے وہ اس کو اپنی محنت اور قابلیت سمجھتا ہے۔ درحقیقت یہ اللہ مالک و خالق کے فضل کے ساتھ ساتھ اس کی آزمائش بھی ہے۔

میرے پیارے آقا دو جہاں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو تمام کائنات کے لیے رحمت اللعالمین ہیں ۔ قیامت تک آنے والے تمام انسانوں کے لیے مشعل راہ ہیں۔ بے شمار غیر مسلمانوں نے آپ کے فرمودات پر عمل کر کے ترقی کی ہے۔ اور ایک آج کا مسلمان ہے جو کے رابن شرما کی کتاب سے متاثر ہو کر کہتا ہے کہ صبح جلدی اٹھنا چاہیے۔

آپ صلی اللّہ علیہ وآلہ وسلم نے تین لوگوں کا واقعہ بیان کیا جن میں سے ایک اندھا، دوسرا کوڑی اور تیسرا گنجا تھا- تینوں انتہائی غریب تھے۔ اللہ مالک کائنات نے اپنا فضل کیا، فرشتہ بھیجا گنجے سے پوچھا کیا چاہیے اس نے بالوں اور غربت سے چھٹکارے کا سوال کیا۔ فرشتے نے ہاتھ پھیرا تو بال بھی آگے اور مال بکریوں کے ریوڑ کی صورت میں عطا کیا گیا۔ پھر کوڑی سے پوچھا گیا اسے کیا چاہیے اس نے کہا کہ مجھے شفا مل جائے اور فراوانی رزق کا سوال کیا۔ اسے بھی شفا مل گئی اور اور مال گائے بھینس کی صورت میں عطا ہوا ۔ پھر تیسرے سے پوچھا تو اس نے بینائی کی نعمت اور مال کا سوال کیا اس کو بھی اس کی مراد مل گئی اور بہت سے اونٹ عطا ہوئے۔

وقت گزرتا گیا ان تینوں کے مال میں برکت ہوئی۔ گنجے کے پاس بکریوں، کوڑھی کے پاس گائیں بھینس اور اندھے کے پاس اونٹوں کی کثرت ہوگئی۔ اللہ رب العزت نے امتحان لینے کا فیصلہ کیا۔

یاری تیری سونا اے،

پر آزمائش وی تیری آگ۔

سب سے پہلے گنجے کو کہا گیا کہ مالک کے رستے میں کچھ دے اس کا جواب بھی ہمارے آج کل کے امیروں جیسا تھا کہ میرے خرچے ہی بہت ہے۔ مسائل بہت زیادہ ہے اس نے کہا میں نے تو سنا تھا کہ تو بھوکا ننگا اور گنجا تھا، اس نے بہت غصیلے انداز میں کہا کہ میں تو جدی پشتی امیر تھا اور اس کو بھگا دیا فرشتہ جو سائل کے روپ میں تھا اس نے کہا اچھا تو جیسے پہلے تھا ویسے ہی ہو جا پھر وہ دوبارہ سے کنگلا اور گنجا ہو گیا۔

پھر وہ کوڑی کے پاس گیا سوال کیا کہ اللہ کی راستے میں کچھ دے اس کا جواب بھی پہلے سے مختلف نہ تھا میں بہت پریشان ہوں اور ہاتھ تنگ ہے۔ سائل نے کہا میں نے تو سنا ہے کہ تو پہلے کوڑی تھا اور مفلس بھی۔ اس نے کہا تیرا دماغ تو خراب نہیں میں تو شروع سے ہی رئیس ہوں ۔ جاتے ہوئے فرشتے نے کہا کہ تو پہلے جیسا ہو جا۔ سب کچھ اُجڑ گیا، مال بھی گیا اور وہ دوبارہ کوڑی ہوگیا۔

پھر وہ تیسرے کے پاس گیا اور سوال کیا کہ اللہ کے نام پر کچھ دے اس نے کہا مالک کے نام پر سب کچھ قربان ہے یہ اونٹ موجود ہیں لے جا جو لے کر جانا ہے۔ سائل نے اس سخاوت کی وجہ دریافت کی تو اس نے حقیقت بتا دی کہ میں تو اندھا بھی تھا اور مفلس بھی ۔ مالک نے فضل کیا اور نعمتوں کے ڈھیر لگا دیئے۔ اس نے کہا میں تو اللہ کے نام پر جان بھی قربان کرنے کے لیے تیار ہوں سائل نے بتایا کہ مجھے کچھ نہیں چاہیے۔ مجھے تیری آزمائش کے لیے بھیجا تھا۔ اس کی جان اور مال میں برکت کی دعا دے کر رخصت ہوگیا۔

آپ اس واقعہ سے آپ کیا سبق سیکھتے ہیں وہ میں آپ پر چھوڑتا ہوں لیکن بات کہنے میں حق بجانب ہوں کہ دولت وراثت نہیں فضل الہی اور ایک کٹھن آزمائش ہے۔ آخرمیں ایک قول آپ کی خدمت میں عرض کرتا ہوں کہ تم اللہ کے دیے ہوئے تھوڑے سے راضی ہو جاؤ اوروہ تمہارے تھوڑے اعمال سے راضی ہو جائے۔