موجودہ ملکی حالات سے ہر شخص واقف ہے- جب سے حکومت تبدیل ہوئی ہے یا کی گئی ہے ایک بے چینی کی صورت حال ہے- معاشی صورتحال انتہائی خراب ہوچکی ہے۔ آی ایم ایف کی تلوار لٹک رہی ہے اللہ نہ کرے ملک دیوالیہ ہونے کے قریب ہے ، ڈالر کی پرواز رکنے کا نام ہی نہیں لے رہی۔ اسٹاک ایکسچینج میں مسلسل مندی کا رجحان ہے۔ وفاق اور پنجاب میں حکومت کہیں نظر نہیں آرہی اس صورتحال میں سب سے زیادہ فائدہ پیپلزپارٹی کو ہوا ایک تو ان کی سندھ میں پہلے سے حکومت ہے۔ دوسرا انہیں مفت میں وفاقی حکومت میں بھی حصہ مل گیا اور بلاول وزیر خارجہ بن کر بیرونی دورے کر کے اپنی اور پارٹی کے لیے اگلی مکمل حکومت کے لیے راہ ہموار کر رہے ہیں ۔ یہاں ان کے بابا الیکشن قوانین میں تبدیلی کروانے اور اپنے خلاف کیسزختم کروانے کے لیے سرگرم ہیں اسی لیے تو کہتے ہیں ایک زرداری ۔۔۔
بدنامی ساری باقی پارٹیوں کے حصے میں آئی خصوصاً مسلم لیگ نون یا اب آپ اس کو شین کہہ لیں لیکن ہر ایک دوسرے کو غلط ثابت کرنے پر تلا ہوا ہے۔ اس وقت پوری قوم دو حصوں میں تقسیم ہے عمران خان کے حامی نوازشریف کا اور نواز شریف کے حامی عمران خان کا نام تک سنا گوارا نہیں کر رہے ایسے میں کیسے پتہ چلے گا کہ کون صحیح ہے اور کون غلط ہے ۔ یہ بات تو تاریخ سے آسانی سے سمجھی جاسکتی ہے کہ ہمیشہ ہمارے ملک میں اقتدار امریکہ کے رستے سے ہی حاصل کیا گیا ہے یہ الگ بات ہے کہ عمران خان کی مہربانی سے یہ بات عوامی سطح پر کھل کے اجاگر ہو گئی ہے اور ابھی بھی اگر آپ مطالبات دیکھیں تو بالکل معقول ہیں کہ اگر امریکہ نے مداخلت نہیں کی تو آپ عوام کو موقع دیں وہ فیصلہ کریں کہ ان کے اوپر کون حکمران ہوگا دونوں سیاسی پارٹیوں کے جلسوں کو دیکھا جائے یہ بات نہیں کہ مریم اور حمزہ عوام کو اکٹھا نہیں کرپائے۔
بہرکیف کون صحیح کون غلط اس کا فیصلہ میں آپ اور وقت پر چھوڑتا ہوں ہمیں اپنے ملک کا وفادار ہونا ہے ہمیں یہ دعا کرنی ہے کہ اللہ جو بہتر ہے وہ ہمیں عطا فرما۔ اس کے لئے ہمیں خود بھی من حیث القوم ایک بہتر رویہ کو اختیار کرنے کی ضرورت ہے ۔