پاکستان سمیت اس وقت دنیا بھر میں ”افراط زر” کی گونج سنائی دے رہی ہے جس سے نہ صرف عام عوام بلکہ کاروباری اور اقتصادی حلقے سبھی بری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک کی بات کی جائے تو اپریل میں،امریکہ میں کنزیومر پرائس انڈیکس (سی پی آئی) اور پروڈیوسر پرائس انڈیکس (پی پی آئی) کی سال بہ سال شرح نمو میں بالترتیب 8.3 فیصد اور 11.0 فیصد اضافہ ہوا۔ اس وقت امریکی سی پی آئی اور پی پی آئی بدستور چار دہائیوں کی بلند ترین سطح پر ہیں۔مہنگائی کے معاملے میں یورپ کی صورتحال اور بھی بدتر ہے کیونکہ یورپی یونین کے رکن ممالک کو توانائی کی قلت اور روس یوکرین تنازعہ سے پیدا ہونے والی جغرافیائی سیاسی کشیدگی کا سامنا ہے۔
کووڈ۔19 کی وجہ سے سپلائی چین میں خلل عالمی افراط زر کی ایک اہم وجہ ہے۔ وبائی صورتحال کے آغاز میں، دنیا بھر کے بہت سے ممالک نے ”انتظار کرو اور دیکھو” کا رویہ اختیار کیا، جس کی وجہ سے وبا کی سنگینی میں مزید اضافہ ہوا۔ وائرس کے پھیلا¶ کی وجہ سے کچھ خطوں میں پیداوار بند ہو گئی جس کا نتیجہ سپلائی کی شدید قلت کی صورت میں سامنے آیا۔ اسی طرح مزدوروں کی کمی نے بھی سپلائی چین کو مزید جھٹکا دیا۔معیشت کی زبان میں جب طلب اور رسد میں عدم توازن آ جائے یعنی طلب زیادہ ہو مگر رسد اُسے پورا نہ کر پائے تو نتیجہ افراط زر برآمد ہوتا ہے۔ وبا نے نقل و حمل کی خدمات میں بھی خلل ڈالا جس سے مال برداری کی قیمتوں میں زیادہ اضافہ ہوا، اس رجحان نے بھی عالمی افراط زر کو بڑھاوا دیا ہے۔
اسی طرح فروری میں شروع ہونے والا روس یوکرائن تنازعہ عالمی افراط زر کے مسئلے کو بدستور مزید بڑھا رہا ہے جس میں توانائی کا بحران بھی شامل ہے۔علاوہ ازیں روس یوکرین تنازعہ کا اثر معدنیات اور زرعی مصنوعات پر بھی مرتب ہوا ہے۔ یہ تنازعہ شروع ہونے کے بعد سے ایلومینیم، نکل اور تانبے کی قیمتوں میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ دنیا میں خوراک پیدا کرنے والے ایک اہم خطے کے طور پر یوکرین کی زرعی پیداوار اور برآمدات بھی بے حد متاثر ہوئی ہیں۔ گندم، سورج مکھی کے تیل اور دیگر زرعی مصنوعات کی عالمی سپلائی شدید متاثر ہوئی ہے۔ اشیائے خوردونوش کی قیمتیں بھی سی پی آئی کا ایک اہم حصہ ہیں، اور روس۔یوکرین تنازعہ نے بلاشبہ خوراک کی عالمی قیمتوں میں اضافے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
اب آتے ہیں عالمی سطح پر مہنگائی سے نمٹنے میں چین کے اہم کردار سے متعلق جہاں مناسب روک تھام کی پالیسیوں کی وجہ سے کووڈ۔19 تیزی سے کنٹرول میں آ رہا ہے۔ ملک میں صنعتی چین انسداد وبا کے تحت باقاعدگی سے کام کر رہی ہے، اور دیگر ممالک کے مقابلے میں رسد کا شعبہ بھی نسبتاً کم متاثر ہوا ہے۔ 2020 اور 2021 میں، چین میں براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کی مالیت بالترتیب 163 بلین ڈالر اور 173 بلین ڈالر رہی ہے۔دنیا کی ٹاپ کی ملٹی نیشنل کمپنیاں چینی مارکیٹ اور یہاں ترقیاتی امکانات سے فائدہ اٹھانے کے لیے اپنا سرمایہ لے کر آئی ہیں۔ بیرونی سرمایہ کاری کے یہ اعدادوشمار چین میں مستحکم کاروباری ماحول اور غیر ملکی کمپنیوں کے چین پر اعتماد کی عکاسی کرتے ہیں۔یوں دنیا کی فیکٹری کہلانے والے چین نے مصنوعات کی پیداوار اور تجارتی سرگرمیوں کے تسلسل سے دنیا کو بے حد فائدہ پہنچایا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ چینی کمپنیوں کو دیگر ملٹی نیشنل اداروں کی طرح بہت سارا خام مال، مثلاً تیل، تانبا، لوہے وغیرہ درآمد کرنے کی ضرورت ہے اور بہت سے چینی مینوفیکچرنگ اداروں کو بھی بڑھتی ہوئی لاگت کے مسائل کا سامنا ہے، مگر اس کے باوجود چینی کمپنیوں نے اپنی پیداواری سرگرمیوں کو جاری رکھا جس سے جہاں انسداد وبا کے ساز وسامان کی ترسیل میں آسانیاں پیدا ہوئیں وہاں تجارتی مصنوعات کی بروقت نقل و حمل سے مختلف ممالک کی طلب کو پورا کرنے میں بھی نمایاں مدد ملی ہے۔ مجموعی طور پر چین نہ صرف اندرون ملک مہنگائی پر قابو پانے میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کر رہا ہے بلکہ عالمی افراط زر کو کم کرنے اور عالمی قیمتوں کو مستحکم کرنے میں بھی مثبت کردار ادا کر رہا ہے۔