ہمارے اسکول کے زمانے میں اکثر مہینے میں ایک بار میجک شو کا اہتمام کیا جاتا تھا تا کہ بچوں کی پڑھائی کا بوجھ کچھ کم ہو سکے اسکول میں آنے والے شعبدہ باز عموماً دو طرح کے ہوا کرتے تھے ایک تو وہ جن کو اپنی ہاتھ کی صفائی پر مکمل عبور حاصل ہوتا تھا اور دوسرے وہ جو مسخروں کا روپ دھار کر صرف شعبدہ بازی کی ایکٹنگ کیا کرتے تھے۔
یہاں میں شعبدہ بازی کی ایکٹنگ کرنے والوں کا ذکر کرنے والا ہوں مثال کے طور پر ایک دفعہ اس قسم کے مسخرے نے اسکول کے اسٹیج پر کھڑے ہو کر دعویٰ کیا کہ اگر میں آپ میں سے کسی بچے کو اسٹیج پر بلا کے آپ کی نظروں کے سامنے غائب کر دوں تو ؟ یہ سن کر حاضرین پر مکمل سکوت طاری ہو گیا ہر کوئی حیران تھا کہ کیا ایسا ممکن ہے ؟ کیا واقعی کوئی ہماری نظروں کے سامنے سے غائب ہو جائے گا ؟ تمام بچوں کے چہروں پے حیرت اور خوشی کے ملے جلے تاثرات تھے خوش وہ بچے نظر آ رہے تھے جو اسکول سے ہمیشہ کے لیے غائب ہو جانا چا ہ رہے تھے کہ جادوگر کسی طرح انہیں آواز دے کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے غائب کر دے اور ہماری اسکول سے جان چھوٹ جاۓ خیر مسخرہ شعبدہ باز نے کہا کہ اگر آپ میں سے کوئی بچہ غائب ہونا چاہتا ہے تو وہ اسٹیج پر آ جائے۔
ایک چھوٹے سے بچے نے بخوشی اپنے آپ کو اس شعبدے کے لیے پیش کر دیا مسخرے نے جلدی سے اس بچے کو ایک ڈبے سے ڈھک دیا اس ڈبے کا سائز اس بچے جتنا ہی تھا بچے کو ڈبے میں ڈھکنے کے بعد مسخرے نے اپنی میجک اسٹک دونوں ہاتھوں میں لہرا لہرا کر اس ڈبے پر گھمائی اور اس ڈبے پر ایک اور اس سے بڑے سائز کے ڈبے کو چڑھا دیا اب بچہ دو ڈبوں کے اندر تھا مسخرے نے پھر اپنی میجک اسٹک کو کچھ پڑھتے ہوئے ڈبے کے اردگرد گھمایا تمام مجمع دانتوں تلے انگلیاں دبائے بیٹھا تھا مسخرے نے ایک اور بڑا ڈبا اٹھایا اور تیسری مرتبہ پھر بچے والے ڈبے پر چڑھا دیا اور میجک اسٹک والا عمل دہرایا اس کے بعد مسخرے نے ایک بلند صدا لگائی سامعین حاضرین اپنے اپنے دلوں کو تھام لیں اب جو ہونے جا رہا ہے اسے دیکھ کر آپ کو اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آئے گا کمزور دلوں والے کمرے سے باہر جا سکتے ہیں۔
خاموشی اتنی تھی کہ سوئی گرنے کی آواز بھی با آسانی سنی جا سکتی تھی اس کے بعد شعبدہ باز نے پہلے سب سے بڑے ڈبے کو ہٹایا ناظرین کی آنکھیں ڈبوں پر مقناطیس کی طرح چپکی ہوئیں تھیں مسخرے نے آہستہ آہستہ دوسرا ڈبہ بھی اچک لیا مجمع اب اپنی سانس لینا بھی تقریباً بھول چکا تھا کہ تیسرا ڈبا اٹھاتے ہی بچہ غائب ہو چکا ہو گا آخر جیسے جیسے مسخرے کے ہاتھ تیسرے ڈبے کی طرف بڑھتے جا رہے تھے مجمع پوری طرح جادوگر کے ٹرانس میں آ چکا تھا اور جیسے ہی تیسرا ڈبہ اٹھایا جاتا ہے بچہ ویسے کا ویسا اپنی جگہہ پر کھڑا انگوٹھا چوس رہا ہوتا ہے جس پر مسخرہ جادوگر یہ دلیل دیتا ہے کہ دیکھیں آپ کے سامنے میں نے اسے غائب کرنے کی اپنی پوری کوشش کی منتر بھی پڑھے اور جادوئی چھڑی بھی گھمائی پر یہ غائب ہوا ہی نہیں ایک دم سب کی ہنسی چھوٹ جاتی ہے اور ہال تالیوں سے گونج اٹھتا ہے۔
قصہ یہاں ثبت کرنے کا مقصد یہ تھا کہ ہمارے سیاست دان بھی ان اسٹیج کے جادوگر جیسے ہی ہیں یہ اسٹیج پر کھڑے ہو کر بلند و بانگ دعوے ضرور کرتے ہیں جس کی وجہ سے ساری عوام ایک دفعہ جادوگر کے شعبدہ دیکھنے کی طرح اسٹیج پر نظریں جما کر بیٹھ جاتی ہے لیکن وہ غائب ہونے والا بچہ جو کہ عوامی مسائل ہیں وہ وہیں کا وہیں موجود رہتا ہے۔ اب آپ نئے وزیر اعظم کو دیکھ لیں انھوں نے اسٹیج یعنی حکومتی کرسی پر چڑھتے ہی روایتی بھڑک مارتے ہوئے پینشنز میں اضافے اعلان کیا اور اطلاق اپریل کی پینشنز کے ساتھ نتھی کر دیا، لیکن وہ بڑھی ہوئی پینشن ابھی تک کسی کو نہیں مل پائی اور دوسری طرف تیس روپے پٹرول میں اضافہ فوری طور پر کر کے اس کا اطلاق بھی فوراً کر دیا گیا یعنی مہنگائی کرنے کا اطلاق فی الفور اور پنشنز بڑھانے یا غریب کو فائدہ دینے کے لیے صرف ٹامک ٹوئیاں مار دی جاتی ہیں آپ کسی بھی پارٹی کے حامی یا سپورٹر ہوں لیکن ایک بات آپ کو دل سے تسلیم کرنی ہی پڑے گی کہ ہمارے سیاست دان لیڈر بالکل نہیں ہیں بلکہ یہ سب اسٹیج کے مسخرے جادو گر ہیں جن سے عوامی فلاح کی امید نا رکھی جاۓ۔