دنیا کے وہ ممالک جن کی آبادی کا ایک بڑا حصہ دیہی علاقوں میں رہائش پزیر ہے وہاں ایک مضبوط زرعی صنعت، خوبصورت دیہی علاقے اور خوشحال کسان، پائیدار اور دیرپا اقتصادی سماجی ترقی کی مضبوط بنیاد کہلاتے ہیں۔ پاکستان کی ہی بات کی جائے تو شہری اور دیہی علاقوں میں ترقیاتی خلیج کے سبب لوگوں کی بڑی تعداد شہروں کا رخ کر رہی ہے جس سے نہ صرف محدود وسائل کے حامل شہروں کو دباؤ کا سامنا ہے بلکہ دیگر کئی سماجی مسائل بھی جنم لے رہے ہیں۔ایک جانب اگر تعلیم،صحت اور بہتر معیار زندگی کی خاطر دیہی باشندوں کی شہروں میں آباد کاری سے زراعت کا شعبہ متاثر ہو رہا ہے تو دوسری جانب فرسودہ زرعی نظام بھی کسانوں کی خوشحالی میں ایک رکاوٹ ہے جس سے کئی اضافی مسائل سامنے آئے ہیں۔اس صورتحال میں شدت سے یہ محسوس کیا جا رہا ہے کہ دیہی و شہری ترقی میں توازن کی کوشش کی جائے اور دیہی علاقوں میں تمام بنیادی سہولیات کی فراہمی سے شہری نقل مکانی کے رجحان میں کمی لائی جائے۔
اس حوالے سے ہمارے پاس چین کی بہترین مثال موجود ہے جس نے نہ صرف عہد حاضر بلکہ آئندہ دہائیوں تک کے لیے ملک کی دیہی ترقی و خوشحالی کی منصوبہ بندی کر رکھی ہے۔ دیہی تعمیر سے متعلق تازہ ترین ایکشن پلان کے مطابق 2025 تک چین بھر میں عملی اقدامات اور مؤثرپالیسی سازی سے دیہی تعمیر و ترقی سے متعلق ٹھوس پیش رفت کو یقینی بنایا جائے گا اور دیہی زندگی کے ماحول میں مسلسل بہتری لائی جائے گی۔ چین تمام دیہی باشندوں کو یہ ضمانت دینا چاہتا ہے کہ ہر گاؤں اور گھرانے کو دیہی انفراسٹرکچر تک رسائی حاصل ہو، بنیادی عوامی خدمات میں مسلسل ترقی ہو اور دیہی علاقوں میں ثقافتی اور اخلاقی ترقی کو فروغ دینے کے ٹھوس نتائج حاصل ہوں۔
ایکشن پلان میں بنیادی ڈھانچے اور خدمات دونوں کی ترقی پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔ اسی بنیاد پر دیہی سڑکوں، پانی کی فراہمی، توانائی، لاجسٹکس، رہائش اور طرز زندگی کو بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ عوامی خدمات اور دیہی نظم و نسق کی ترقی کو فروغ دینے کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ ایکشن پلان کے تحت دیہی تعمیرات میں پہل کو آگے بڑھاتے ہوئے دیہی علاقوں کو رہائش اور روزگار کی فراہمی کے لیے مزید پرکشش مقامات بنایا جائے گا۔اس ضمن میں2017 میں پہلی مرتبہ متعارف کروائی جانے والی دیہی احیاءکی حکمت عملی کے اہداف کی روشنی میں 2035 تک زراعت اور دیہی علاقوں کی بنیادی جدت کاری، اور 2050 تک مضبوط زراعت، خوبصورت دیہی علاقوں اور خوشحال کسانوں کے عظیم ہدف کے حصول کی کوششوں کو آگے بڑھایا جائے گا۔
چین کی دیہی ترقی میں حاصل شدہ کامیابیوں کا مختصر جائزہ لیا جائے تو 2020 کے آخر تک ایک تین سالہ مہم کے دوران 40 ملین سے زائد دیہی گھریلو بیت الخلاءکی تزئین و آرائش کی جا چکی ہے جبکہ دیہی علاقوں میں صاف بیت الخلاءکی رسائی کی شرح 68 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔2016 سے 2020 تک، چین نے 1.4 ملین کلومیٹر سے زائد دیہی سڑکوں کی تعمیر یا مرمت کی ہے۔آئندہ بھی ملک بھر میں دیہی سڑکوں کی تعمیر جاری رکھی جائے گی اور 2035 تک ان سڑکوں کی کل لمبائی کو تقریباً 5 ملین کلومیٹر تک لے جایا جائے گا۔ چین اپنے وسیع دیہی علاقوں میں سیوریج ٹریٹمنٹ کو بھی بہتر بنائے گا اور سیوریج ٹریٹمنٹ کی شرح کو 2020 کے 28 فیصد کے مقابلے میں 2025 تک 40 فیصد تک بڑھایا جائے گا۔اسی طرح صحت کے میدان میں 2021 کے آخر تک، 23 ہزار سے زائد کاؤنٹی کی سطح کے طبی اور صحت کے ادارے، 35 ہزار ٹاؤن شپ ہیلتھ سینٹرز اور تقریباً چھ لاکھ گاؤں کی سطح کے کلینک قائم کیے گئے ہیں، جس سے رہائشیوں کو 15 منٹ کے اندر طبی خدمات تک رسائی حاصل ہو چکی ہے۔اسی طرح دیہی علاقوں میں انٹرنیٹ کی سہولیات سے ای کامرس کو بھی بھرپور فروغ ملا ہے جس سے دیہی باشندوں بشمول کسانوں کو اپنی مصنوعات آن لائن فروخت کرنے کا مؤثرپلیٹ فارم میسر آیا ہے اور اُن کی آمدن میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔
چین کی کوشش ہے کہ بنیادی ڈھانچے کی ترقی کے علاوہ دیہی گورننس، دیہی صنعتوں کی پائیدار ترقی، عوامی خدمات اور ثقافتی ترقی کے فروغ کا بھی احاطہ کیا جائے۔ اس ضمن میں ایک سرسبز دیہی تعمیر اور فطری وسائل کے مربوط تحفظ پر عمل درآمد کیا جائے گا تاکہ مادی ترقی اور قدرتی ماحول کے درمیان ہم آہنگی پیدا کی جا سکے۔چین کی اس منصوبہ بندی کی ایک بڑی خوبی یہ بھی ہے کہ فیصلہ سازی اور ترقیاتی عمل میں کسانوں اور دیہی طبقوں کی شرکت کو یقینی بنایا جا رہا ہے اور ساتھ ہی شہری تعمیراتی ماڈلز کی تقلید کے بجائے روایتی فن تعمیر، لوک ثقافت اور مقامی خصوصیات کو برقرار رکھا جا رہا ہے۔ الغرض نچوڑ یہی ہے کہ اس سارے عمل میں دیہی باشندے نہ صرف دیہی تعمیر و ترقی کے مستفید کنندہ ہوں گے بلکہ اس عمل کے اہم ساجھے دار، معمار اور نگران بھی ہوں گے، جس میں دنیا کے ترقی پزیر ممالک کے لیے سیکھنے کے کئی پہلو عیاں ہیں۔