اشفاق احمد سے ناصرہ اقبال تک

اشفاق احمدجب اٹلی میں درس وتدریس کے شعبہ سے وابستہ تھے تو ان کا ایک مشہور واقعہ ہے کہ ایک روزجب وہ واپس گھر جا رہے تھے کہ ایک گول چکر میں ٹریفک کا ہجوم نہ پا کر انہوں نے ٹریفک کے قوانین کی خلاف ورزی کرڈالی۔اتفاق سے کسی پولیس والے دیکھ لیا اور چالان کاٹ کر ان کے ہاتھ میں تھما دیا۔اب ظاہر ہے کہ ملک پاکستان ہوتا تو کوئی لے دے کر رفع دفع کر لیا جاتا،اب پردیس ہے اور وہاں پر سفارش بھی نہیں چلتی تو اشفاق احمد کہتے ہیں کہ میں دفتری مصروفیات کی بنا پر بر وقت عدالت میں جا کر جرمانہ کی رقم ادانہ کر پایا جس پر عدالت کی طرف سے مجھے وارننگ سمن آگئے جو اتفاق سے میری مکان مالکن کے ہاتھ لگ گئے۔پہلی وارننگ تو اس مالکن کی طرف سے مجھے موصول ہوئی کہ کیااس کا مطلب ہے کہ میں نے ایک ایسے شخص کو کرایہ دار رکھا ہوا ہے جو کہ قانون شکن ہے،لہٰذا میں نے فورا عدالت کا رخ کیا اور جج صاحب کے سامنے جا کر عرض کیا کہ جناب میں چونکہ ایک استاد ہوں ،اس لئے مجھے وقت نہ مل سکا کہ اپنا جرمانہ بر وقت ادا کر سکتا جس پر میں معزرت خواہ ہوں۔جج کا یہ سننا تھا کہ اس نے عدالت میں بآواز بلند پکارنا شروع کردیا کہ A Teacher in the court. بس پھر کیا تھا وہاں سب لوگ اپنی اپنی کرسیوںسے کھڑے ہوگئے۔جس پر اشفاق احمد کہتے ہیں کہ مجھے بڑی شرمندگی ہوئی کہ اس ملک میں ایک استاد کی اس قدر عزت ہے اور مجھ سے کیا حرکت سرزد ہوگئی۔بات ابھی ختم نہیں ہوئی بلکہ جج صاحب نے یہ کہہ کر میرا فیصلہ سنایا کہ اگرچہ مجھے یہ لکھتے ہوئے شرمندگی ہو رہی ہے کہ ایک استاد کو میں جرمانہ کی سزا سنانے پر مجبور ہوں جس کی تربیت کی بنا پر آج میں اس کرسی انصاف پر تشریف رکھے ہوئے ہوں۔لہٰذا میں یہ فیصلہ سناتا ہوں کہ آپ اپنے قریبی ڈاک خانہ میں جرمانہ کی رقم ادا کر دیں۔

مذکور واقعہ ایک ایسے ملک کا ہے جو اسلام کے نام پر حاصل نہیں کیا گیا۔وہاں کی اخلاقی اقدار کا بھی مذہب سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ایک ایسا ملک جس میں کئی مذاہب کے لوگ روازنہ کی بنیاد پر سیاحت کی غرض سے آتے ہیں لیکن کبھی کوئی ایسا غیراخلاقی واقعہ رونما نہیں ہوا کہ جس سے حکومت وقت کو شرمندگی کا سامنا کرنا پڑے۔لیکن میرا ملک پاکستان جسے سنتے ہوئے مجھے پچاس سال اور پڑھاتے ہوئے بائیس سال ہو گئے ہیں کہ مملکت خداد پاکستان دنیا کی واحد جغرافیائی حدود ہے جس کی بنیاد کلمہ طیبہ پر رکھی گئی۔اس لحاظ سے تو ملک اور اس لے لوگوں کو اخلاقیات کی اعلی اقدار پر فائز ہونا چاہئے لیکن نہیں ایسا کبھی اورکسی دور میں دیکھنے کو نصیب نہیں ہوا۔جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے مصداق ہمیشہ قانون کی نہیں لاٹھی گولی کی حکمرانی ہی دیکھنے کو ملی ہے۔جس کی ایک حالیہ مثال حکومت وقت کا سابقہ وزیراعظم عمران خان کی کال پر لانگ مارچ کو رکوانے کے لئے گھر گھر چھاپے اور انسانیت سوز سلوک خاص کر خواتین کے ساتھ دیکھنے کو مل رہا ہے۔

ابھی تک جو واقعات رپورٹ ہو سکے ہیں ان کے مطابق ریٹائرڈ جسٹس لاہور ہائیکورٹ،قانون کی پروفیسر،ڈاکٹر جاوید اقبال کی بیگم اور مصور پاکستان ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کی بہو ناصرہ اقبال ،ڈاکٹر یاسمین راشد اور ممبر کنٹونمنٹ بورڈریحان بن جاویدکے گھر رات گئے گھس کر خواتین کو ہراساں کرنے کے سامنے آئے ہیں۔حکومت وقت جو کہ دعویدار ہے کہ عمران خان نے اس ملک میں اخلاقیات کاجنازہ نکال دیا،عمران خان نے ملک میں بدتمیزی کا کلچر متعارف کروایا،عمران خان یہ اور عمران خان وہ، یہ سب کس لئے،محض ایک لانگ مارچ رکوانے کی خاطر۔ایسا کیوں؟آپ کاتو دعویٰ ہے کہ آپ ووٹ کو عزت دیتے ہیں،عوامی لیڈر ہیں،پاکستان کھپے کا نعرہ بلند کرنے والے ہیں اور اسلام کی ٹھیکیداری بھی اب تو آپ کے ساتھ ہے کیا آپ سب نے یعنی بلاول،ن لیگ اور مولانا فضل الرحمن نے اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ نہیں کیا،کیا مولانا صاحب نے اسلام آباد پر قبضہ کرنے کے لئے ملک گیراحتجاج اور مدارس کے طلبا کو سیاسی عزائم کے مقاصد کی تکمیل کے لئے اسلام آبادمیں دھرنا نہیں دیا اگر یہ سب کچھ اسی ملک میں ہوا ہے اور عمران خان کی حکومت میں ہوا تھا تو اس بات کیا صداقت ہے کہ انہیں کہیں کسی جگہ بھی ایسی مزاحمت اور گرفتاریاں عمل میں لائی گئیں جیسا کہ گذشتہ روز سے دیکھنے ،سننے اور جاننے کا موقع مل رہا ہے۔خداکی پناہ کہ ایک ایسا ملک جس میں حالیہ حکومت ووٹ کی عزت کی بات کرتی ہے اور مخالفین کی ایک لانگ مارچ رکوانے کے لئے ووٹ کیا انسانیت ،خصوصا خواتین کی عزت کی پامالی میں پیش پیش دکھائی دے رہی ہے۔کیا واقعی ملک بقول شاکر شجاع آبادی کے بقول،لوہاروں اورلوٹیروں کے ہاتھ میں چلا گیا ہے۔

آخر میں میرا میڈیا کے نام نہاد قلم فروشوں،جعلی دانش وروں،ٹکے ٹوکری بکنے والی انسانی حقوق کی علمبردار تنظیموں سے ایک سوال ہے کہ کیا اس ملک کی بیٹی صرف اور صرف مریم نواز ہی ہے۔کیا اس کی عزت ملک پاکستان کے عوام پر فرض کر دی گئی ہے۔ایک عظیم ڈاکٹر،ایک ریٹائرڈ جج،قانون کی پروفیسر،اور علامہ اقبال کی بہو،اور ایک فوجی کی بیٹی کی اس ملک میں کوئی حیثیت اور عزت نہیں ہے کہ رات کے اندھیرے میں بنا وارنٹ پولیس گردی کرنے کے لئے مخالفین کے گھروں میں چھاپے مارے جاتے ہیں اور گھر میں موجود خواتین کی تذلیل صرف اس لئے کی جاتی ہے کہ وہ مخالف جماعت سے تعلق رکھتی ہیں۔پولیس افسران کو بھی سوچ سمجھ کر اپنے فرائض منصبی سرانجام دینے چاہئے کہ وہ اس ملک پاکستان کے ملازم ہیں،پاکستان کے قانون و آئین کی عملداری ان کا فرض ہے نا کہ کسی سیاستدان کے ذاتی ملازم۔کیونکہ حکومتیں تو آتی جاتی رہیں گی ملک اور آپ کی ملازمت مستقل ہے۔انہیں اپنے ضمیر کے مطابق سرانجام دیں نا کہ ان عارضی طاقتوں کے لئے جن کو اپنی خبر نہیں۔دنیا میں اور آخرت میں آپ کے اعلیٰ اعمال جائیں گے ایسے لوگ نہیں جونہ آپ سے اور نہ ہی ملک سے وفادار ہیں۔

حصہ
mm
مراد علی شاہد کا بنیادی تعلق کمالیہ پنجاب سے ہے ،تاہم بسلسلہ روزگار عرصہ بیس سال سے دوحہ قطر میں مقیم ہیں ،اور ایک پاکستانی تعلیمی ادارے میں بطور ہیڈ آف سوشل اسٹڈیز ڈیپارٹمنٹ میں فرائض منصبی ادا کر رہے ہیں ۔سنجیدہ موضوعات کے ساتھ ساتھ طنز و مزاح پر لکھنا پسندیدہ موضوع ہے ۔ان کی طنزومزاح پر مشتمل مضامین کی کتاب "کھٹے میٹھے کالم"منصہ شہود پر آ چکی ہے۔دوسری کتاب"میری مراد"زیرطبع ہے۔قطر کی معروف ادبی تنظیم پاکستان ایسوسی ایشن قطر میں بحیثیت جنرل سیکرٹری اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں ۔