ابھی کچھ دن پہلے لودھراں میں ایک شخص نے ایک عورت اور ایک مرد کو قابل اعتراض حالت میں دیکھا اس شخص نے پولیس کو مطلع کیا، پولیس نے رنگے ہاتھوں گرفتار کر لیا۔ دونوں کو تھانے لایا گیا توعورت اپنے پاس موجود تھیلے کی تلاشی دینے سے انکار کرنے لگی۔ پولیس نے اپنے روایتی انداز میں جب پوچھنا شروع کیا پھر بھی خاتون نے تھیلے کی تلاشی دینے سے صاف انکار کر دیا تو ظاہر جو پولیس سوچ رہی تھی کہ کہیں اس میں منشیات تو نہیں یا دوسرا کوئی غیر قانونی سامان تو موجود نہیں،
تفتیشی افسر نے زبردستی تھیلے کی تلاشی لی تو اس میں سے جو کچھ برآمد ہوا، اس نے تھانے میں موجود ہر آدمی کو ہلا کر رکھ دیا۔ منشیات کا شبہ ہونے پر ایس ایچ او نے سخت ڈانٹ ڈپٹ کرتے ہوئے زبردستی تھیلے کی تلاشی لی تو اس میں سے جو کچھ برآمد ہوا، اس نے تھانے میں موجود ہر آدمی کے رونگٹے کھڑے کر دیئے۔
تفتیشی افسر جو اس خاتون سے بڑے سخت اور غصیلے لہجے میں پیش آ رہا تھا اب وہ اتنا نرم ہو چکا تھا اس خاتون سے مزید استفسار کرتے ہوئے اسکی زبان لڑکھڑا رہی تھی رپورٹ لکھتے ہوئے ہاتھوں میں لزرا طاری ہوگیا تھا لہجے میں مٹھاس، احترام اور آنکھیں شدت غم سے نم ہو چکی تھی۔ آخر اس تھیلے میں ایسا کیا تھا؟ جو دیکھنے والی ہر آنکھ کو ہلا کر رکھ دیا تھا ہر پولیس والے کی آنکھ اب کیوں نظریں چرا رہی تھی۔
جی ہاں اس تھیلے میں سے دو سوکھی روٹیاں نکلی تھیں خاتون سے جب مزید پوچھا گیا یہ کیا ہے، کیوں ہے تو خاتون زار و قطار روئے جا رہی تھی آنکھوں سے گرنے والے آنسوؤں نے اس کے میلے کچیلے چہرے کو مزید صاف کر دیا ایک نہایت خوبصورت خاتون آخر اپنی عزت نیلام کرنے پر کیوں مجبور ہوئی ۔
اس نے بتایا میں بیوہ ہوں میرا خاوند کسی بیماری میں چند سال پہلے مر چکا ہے گھروں میں کام کرتی ہوں کسی گھر میں مستقل کام نہ ملنے کیوجہ سے روانہ مختلف گھروں میں کام کرتی ہوں دو دن سے کام نہیں مل رہا تھا تو بچیاں گھر میں بھوکی تھیں تو مختلف ہوٹلوں کے باہر سے زندگی میں پہلی بار بھیک مانگنا شروع کی دو چار ہوٹلوں سے مانگنے پر صرف دو روٹیاں مل سکی، ابھی تین چار روٹیوں کی اور مزید سالن کی ضرورت تھی مایوس ہو کر گھر لوٹ رہی تھی سڑک پر چلتے ہوئے ایک شخص نے نازیبا اشارہ کیا تو بچیوں کی بھوک کے آگے میں نے شکست تسلیم کی چند روٹیوں کے عوض میں نے اپنی عزت نیلام کر دی۔
ہاں ہاں میں نے دو روٹیوں اور سالن کی خاطر اپنی عزت، اپنا وقار، سب کچھ بیچ دیا بیٹیوں کی بھوک کے آگے مجھے اپنی عزت سستی لگ رہی تھی، جب ایس ایچ او نے یہ سارا واقعہ اپنے متعلقہ ڈی پی او کے گوش گزار کیا ڈی پی او نے فی الفور ایف آئی آر خارج کر کے مالی مدد کرنے کا حکم صادر فرمایا بلکہ خاتون کی جاب کیلئے بھی یقین دہانی کرائی گئی۔ اب سوال یہ ہے اس خاتون کی بھوک و افلاس عزت و تحریم کی ذمہ دار کون ہے ریاست یا ہم سب ؟
اس سے بڑی غربت کیا ہوگی، اس سے بڑی بدقسمتی کیا ہوگی، اس سے بڑی ذلت کیا ہوگی، اس سے بڑی بدنصیبی کیا ہوگی، اس سے بڑی لاوارثی کیا ہوگی، اس سے بڑی لاچارگی کیا ہوگی، اس سے بڑی بے حسی کیا ہوگی، اس سے بڑی سنگ دِلی کیا ہوگی کہ ایک حوا کی بیٹی صرف ایک وقت کی روٹی کیلئے اپنی عزت نیلام کر دیتی ہے۔
اب میرا سوال یہ ہے کہ اس خاتون کے ساتھ تو جو ہوا سو ہوا، لیکن اس طرح کی لاکھوں حوا کی بیٹیوں کے ایسے ہی اقدام اور مجبوریوں کا ذمہ دار کون ہے؟ ان کے یہ گناہ کس کے سر ہوں گے؟۔
اپنی غربت کی کہانی ہم سنائیں کس طرح،
رات پھر بچہ ہمارا روتے روتے سو گیا۔