اللہ تعالی نے ہمیں تمام خوبصورت موسموں سے مالا مال کیا ہے اور پھر ان موسموں کے حساب سے ہمیں پھلوں اور سبزیوں سے نوازا ہے لیکن ہمارے ملک میں مسائل اس قدر زیادہ ہیں کہ ایک عام انسان ان موسموں اور اللہ تعالٰی کی عطا کردہ نعمتوں سے لطف اندوز ہونے کا سوچ ہی نہیں سکتا ـ
مہنگائی نے مشکلات میں ڈالا ہوا تھا سونے پر سہاگہ یہ ہوا کہ گرمیوں کےآغازسے ہی کئی مسائل جیسے غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ، بجلی کے نرخوں میں ہوشربا اضافہ جسے مسائل سر اٹھانے لگےـ لیکن اس دفعہ گرمی کے موسم نے بھی آنے میں جلدبازی سے کام لیا اور اس کے آتے ہی پھر پانی کی قلت نے بھی آگھیراـ پانی کا مسئلہ کئی شہروں کو اپنے لپیٹ میں لئے ہوئے ہے ـ
پچھلی کئی دہائیوں سے گلوبل وارمنگ کی وجہ سے پوری دنیا میں موسموں کے حوالے سے نمایاں تبدیلیاں دیکھنے میں آئی ہیں ـ اس کے علاوہ جنگلات کا بے دریغ کٹاؤ بڑھتی ہوئی آبادی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے عمارتوں کی تعمیر نے کئی گھمبیر مسائل پیدا کر دئیے ہیں ـ گرمی کی شدت کو درخت ہی روک سکتے ہیں نہ کہ گلی کوچوں میں لگائی گئی پانی کی سبیلیں ـ یہ بات ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ درخت نہ صرف جانوروں اور پرندوں کا مسکن ہیں بلکہ ہمیں بھی جینے کا سہارا دیتے ہیں ـ شہر کے شہر آباد کرنے کے چکر میں ہم نے درختوں کو بے دریغ کاٹنا شروع کر دیا اور بغیر کسی منصوبے کے سوسائیٹیاں، بڑی بڑی کنکریٹ کی عمارتیں اور پل کھڑے کر دیے اور یہ عمارتیں آسمان سے باتیں کرنے لگیں لیکن ان کی وجہ سے آب و ہوا کی تروتاذگی ہم سے چھن گئی ـ تاحدِ نظر ہمیں بلند بالا عمارتیں اور پل تو نظر آتے ہیں لیکن سایہ دار درخت، ان پر اگنے والے مختلف رنگوں کے پھول، اور پھل، بھنبھناتی گن گاتی تتلیاں اور چڑیوں کی چہچہاٹ ناپید ہو گئی ہے یہی وجہ ہے کہ ڈپریشن اور فرسٹیشن عام ہو گیا ہے کیونکہ روح کو سکون پہنچانے والے قدرتی تحفوں کو تلف کر دیا گیا ہے جو اللہ نے ہمارے لئے تخلیق کئے تھےـ
ہم سب بخوبی واقف ہیں کہ پانی زندگی کی علامت ہےـ ہر جاندار کو زندہ رہنے کے لئے پانی کی اشد ضرورت ہے ـ ملک کے بیشتر علاقے خشک سالی کا شکار ہیں اور پانی کی قلت نے چھوٹے بڑے شہروں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ ترقی یافتہ ممالک سر جوڑ کر بیٹھے ہیں حتٰی کہ وہ پاکستان میں پانی کی کمی پر تبصرہ کر رہے ہیں لیکن ہمارے حکمران صرف اپنی لڑائی لڑ رہے ہیں ان کو بظاہر عوام اور ان کے مسائل سے کوئی سروکار نہیں اس کے علاوہ بڑے اور مستعند ادارے بھی خاموش ہیںـ ان مسائل پر بات ہی نہیں کی جا رہی نہ ہی کوئی آواز اٹھانے کو تیار ہے ـ
بجلی کی لوڈشیڈنگ، مہنگائی کے سیلاب اور بے روزگاری کے عذاب نے کمر توڑی ہوئی تھی کہ اب پانی کی قلت سے جو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے وہ الگ پریشان کن ہے ـ لیکن موجودہ صورتحال کو مدِنظر رکھتے ہوئے ہم صرف حکومت کے اقدامات کی طرف نہیں دیکھ سکتے ـ ہمیں خود ہر سطح پر اپنی مدد آپ کے تحت اپنی ذمہ داری کو نبھاتے ہوئے شجرکاری اور پانی کے ضیاع کو روکنے کے لئے اقدامات کرنے ہونگے تاکہ ہم اپنا اور اپنے بچوں کا مستقبل محفوظ کر سکیں ـ
اعداد و شمار کے مطابق اگر کسی ملک میں پانی کے ذخائر 1000 کیوبک میٹر سالانہ تک پہنچ جاتے ہیں تو یہ ایک خطرناک صورتحال کو ظاہر کرتا ہے جبکہ اس وقت پاکستان میں پانی 850 کیوبک میٹر سالانہ کی کم ترین سطح پر پہنچ چکا ہے جو کہ انتہائی تشویشناک صورتحال ہے ـ جس سے نہ صرف زرعی بلکہ پینے کے پانی کی قلت کا بھی اندیشہ ہے ـ
پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور معیشت کا زیادہ تر انحصار زراعت پر ہے ـ دریا، ندیِ نالے سب خشک ہونے کے باعث پانی کی ترسیل میں مشکلات کا سامنا ہےـ جو پانی گلیشئیرز سے آتا ہے اس کو ذخیرہ کرنے کے انتظامات نہ ہونے کے باعث پانی کا ضیاع زیادہ ہوا ـ جس کی وجہ سے صورتحال مزید گھمبیر ہو گئی ـ اگر ہم سمجھداری سے کام لیتے اور پانی کا ذخیرہ کرنے میں کامیاب ہو جاتے تب ہمیں اس موجودہ صورتحال سے نہ گزرنا پڑتا لیکن ابھی بھی وقت ہے کہ ہم اپنی غلطیوں سے سیکھتے ہوئے مناسب اقدامات کر سکتے ہیں ـ تحقیق کے مطابق تربیلا ڈیم میں پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت کم ہوتی جا رہی ہے کیونکہ آنے والا پانی اپنے ساتھ مٹی لے کر آتا ہے جو کہ جم جاتی ہے اور پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت کو کم کر دیتی ہے ـ
ہم اپنے زرعی نظام میں نئی ٹیکنالوجی کو متعارف کروا کر پانی کی بچت کر سکتے ہیں ـ ہمیں بڑی جامعات سمیت تعلیمی اداروں اور درسگاہوں میں ریسرچ کروانی چاہئیے کہ ایسی کونسی وجوہات ہیں کہ زیرِ زمین پانی کی سطح روزبروز گر رہی ہے اور اس پر کیسے قابو پایا جا سکتا ہےکیونکہ پہلے 50 فٹ کی گہرائی پر پانی دستیاب تھا جو کہ اب 600 سے 700 فٹ کی گہرائی کے بعد بھی اس کے آثار نمودار نہیں ہوتے ـ
اس کے علاوہ ہمارے سوشل میڈیا، مواصلاتی نظام، ٹی وی پروگرامز اور اسکولوں کو بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہئیے کہ وہ لوگوں میں یہ آگاہی پیدا کریں کہ پانی کو ضائع ہونے سے کیسے بچایا جا سکتا ہےـ روزمرہ کے کاموں میں استعمال ہونے والے پانی کو کیسے سمجھداری سے استعمال میں لایا جاسکتا ہے اور ایک دفعہ استعمال کیے گئے پانی کو کیسے کسی اور مقصد کے لئے استعمال کر سکتے ہیں، جیسے سبزی دھونے میں جو پانی استعمال ہوتا ہے وہ پودوں کو دیا جا سکتا ہے اسی طرح ہاتھ منہ دھوتے ہوئے، نہاتے ہوئے پانی کو احتیاط سے استعمال کیا جاسکتا ہے ـ اس سلسلے میں کچھ پرائیویٹ اسکول کام کر رہے ہیں لیکن ان کی یہ کاوش نہ کافی ہے ـ
میرے خیال میں پانی ضائع کرنے پر جرمانہ عائد کیا جائے تاکہ لوگوں کو احساس ہو سکے کہ ہم کس سنگین صورتحال سے دوچار ہونے جا رہے ہیں ـ ہم بہت مشکل صورتحال سے دوچار ہیں اگر برقت ان ماحولیاتی مسائل پر قابو نہ پایا گیا تو ہم بہت بڑی مشکل کا شکار ہو سکتے ہیں ـجو کہ ہمارے اور ہمارے بچوں کے لئے بہت خطرناک ہو سکتا ہے ـ
گلوبل وارمنگ اس صدی کے اہم ترین موضوعات میں سرفہرست ہے ـکیونکہ اسکی وجہ سےپوراکرہ ارض لپیٹ میں آتاہےـ زہریلی گیسوں کی مقدارمیں مسلسل اضافہ ہورہاہےجسکی وجہ سےدنیابھر میں سیلاب، خشک سالی، قحط اور سمندری طوفان عام ہو چکے ہیں ـ پاکستان کاشماران ملکوں میں ہوتا ہے جو گلوبل وارمنگ کی زد میں زیادہ آتے ہیں ـلہذاہمیں اس معاملےکوبالکل نظراندازنہیں کرناچاہئیےـ۔