پچھلے چوبیس سالوں سے کاغذ اور قلم کے ساتھ مستقل بنیادوں پر ایک رشتہ قائم ودائم ہے ۔مشکل سے مشکل حالات،واقعات،حادثات میں بھی کبھی اس رشتہ کے ساتھ بے وفائی یا کسی قسم کی بدسلوکی نہیں بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ ہمیشہ اس تعلق کااحترام کیا ہے اور اہم جانا ہے مگر آج زندگی کے اس موڑ پر کھڑا ہوں جہاں مجھے اپنا آپ بھی بوجھ لگنے لگا ہے اور شدت سے اس بات کا احساس ہورہا ہے کہ عین ممکن ہے کہ میری مجبوریاں مجھ سے میرا یہ اثاثہ چھین لیں۔
تلخی وقت،گردش ایام وقت نے بہت زیادہ ہی مجبور وبے بس کردیا ہے۔ بطور سیرت نگار،کالم نگار،فیچررائٹراب تک ملک بھر کے مختلف قومی اخبارات،رسائل وجرائد میں ”سیرت النبی،افواج پاک کی خدمات ،ملکی سا لمیت،دفاع اسلام ،کشمیر،فلسطین سمیت دیگرز قومی وبین الاقوامی موضوعات پر سینکڑوںکالمز،مضامین،فیچر زلکھ چکا ہوں اور تاحال باقاعدہ طور پر لکھ رہا ہوں اب تک میری چار کتب شائع ہوکر منظر عام پر آچکی ہیں جن پر وزیراعظم پاکستان سے لیکر کئی بڑی بڑی حکومتی سیاسی،مذہبی شخصیات کی طرف سے حوصلہ افزائی کے خطوط اور سرٹیفکیٹس موصول ہوچکے ہیں ۔اتنے طویل ترین قلمی سفر میں راقم الحروف کا ایک مرلہ کا ذاتی گھر بنانا تو دور کی بات اکثر تو کرایہ کے گھر کا کرایہ تک دینے کے بھی پیسے نہیں ہوتے ۔پرنٹنگ کا تھوڑا بہت کام کرکے بمشکل زندگی کا پہیہ گھسیٹ رہا تھا کہ 22مارچ2020کو بوجہ کرونا وباءلگنے والے لاک ڈاﺅن نے کچھ اسطرح سے ڈاﺅن کیا کہ پھر حالات کا سنبھلنا مشکل ہوگیا اوپر سے منہ زور بے لگام مہنگائی نے زندگی اس قدر مشکل کردی کہ یقین کریں اگر خود کشی حرام نہ ہوتی تو اپنا تو آج ہی مرنے کا ارادہ تھا۔
میں اپنی ناکامیوں کی وجہ اچھی طرح سے جانتا ہوں میں خوشامدی،چاپلوسی،اشتہاری،درباری،سرکاری،سیاسی قصیدہ گو نہیں ہوں بقول شاعر ۔جو دیکھتا ہوں وہی بولنے کا عادی ہوں میں اپنے شہر کا سب سے بڑا فسادی ہوں ۔افسوس کہ اس ملک میں میں نے صاحب علم وصاحب بصیرت افراد کو حالات کی تنگ دستی کے ہاتھوں مجبور ہوکر زہر کا پیالہ پیتے دیکھا ہے کیونکہ یہ سلطنت سلجوقیہ نہیں کہ صاحب علم افراد کی قدر کی جاتی سلاطین آل سلجوق علم وفضل کے اتنے قدردان تھے کہ سلطان چغرابیگ نے خواجہ حسن طوسی جیسے علم والے کو تاریخ کی ان مٹ شخصیت نظام الملک بنادیا مگر یہاں گنگاالٹی بہتی ہے یہاں صاحب اقتدار لوگوں کو صرف خوشامدیوں کی ضرورت ہوتی ہے جو انکے ہر غلط فیصلے میں بھی ان کا ساتھ دیں اسی واسطے تو یہاں ہر ضمیر فروش ،قلم فروش صاحب دستار ہے۔دو بیٹیوں کا باپ ہوں کرایہ کا گھر ہے اور معدہ اور گھٹنوں کے کچھ مسائل کا شکار ہونے کی وجہ سے زیادہ بھاگ دوڑ والا وزنی کام نہیں ہوپاتا۔چار ماہ پہلے میری بڑی لخت جگر HBکی شدید کمی کا شکار ہونے کی وجہ سے بے ہوش ہوکر گرگئی بعدازاں دو دن تک سرگنگارام ہسپتال میں زیر علاج رہی دو بوتل خون لگایا گیاڈاکٹر ز نے خوراک کا ایک چارٹ ہاتھ میں تھماتے ہوئے یہ کہاکہ یہی خوراک دینی ہے اور گرمیوں میں بالخصوص ٹھنڈی جگہ(اے سی)میں رہنے کی ہدایت کی۔
ہائے غریبی راقم الحروف کااس قبیلے سے تعلق ہے جہاں پر ہر فرد کے پاس صرف ایک ایک چادر ہوتی ہے جو زندہ رہنے تک اوپر اوڑھی جاتی ہے اور مرنے کے بعد اسی کا کفن دیدیا جاتا ہے۔ بیٹی کی تکلیف،گھر کا کرایہ زندہ رہنے کے لیے راشن پہننے کے لیے کپڑے اور بے روزگاری یقین کیجئے کہ اتنادرد ہوتا ہے کہ اب تویہ بھی پتا نہیں چلتا کہ کہاں کہاں درد ہوتا ہے اپنے اس درد اور بے بسی کو الفاظ میں بیاں کرنا ممکن نہیں۔
بقول شاعر کہ ! گند م امیر شہر کی ہوتی رہی خراب، بیٹی مگر غریب شہر کی فاقوں سے مرگئی۔
حالات کی ستم ظریفی اور چند احباب کی مشاورت سے حاکمین وقت کو جومثالیں تو حضرت ابوبکر صدیقؓ اور حضرت عمرفاروقؓ کی دیتے ہیں مگر افسوس صد افسوس کہ ان کے اقتدار میں ماﺅں کو اپنے بچوں کی بھوک مٹانے کے لیے اپنا جسم تک فروش کرنا پڑتا ہے ،باپ کو اپنے بچوں کی بھوک برداشت نہیں ہوتی تو وہ اپنی قسم دیکر زہرپلادیتا ہے جہاں ایک وقت کی روٹی کے لیے والدین کو اپنی اولاد اور لوگوں کو اپنے جسمانی اعضاءفروخت کرنے پڑتے ہیں کو پے درپے بذریعہ خطوط استدعاکی کہ قلم کا مزدور ہوں بیوی بچوں سمیت سر چھپانے کے لیے کوئی سرکاری کوارٹر ہی الاٹ کردیا جائے۔ مگر میں یہ بھول بیٹھا تھا کہ یہ حضرت عمرفاروق ؓ کا دور نہیں کہ بائیس لاکھ مربہ میل پر حکومت کی اور ایک کتا بھی بھوکا نہیں سویا آپؓ کا مشہور فرمان ہے کہ اگر میرے دور حکومت میں دریائے دجلہ کے کنارے ایک کتا بھی بھوکا مرگیا تو قیامت کے دن عمرؓ کو اسکا بھی حساب دینا ہوگا۔
چند مذہبی رفاحی،فلاحی تنظیموں سے بھی رابطہ کیا مگر یقین جانیے کہ یہ مذہبی لوگ خود کو دین کا حرف آخر اور اپنے سوا سب کو کافر سمجھتے ہیں ان کے ہاں انسانوں کی نہیں بلکہ فرقوں کی قدر کی جاتی ہے ۔حکیم لقمان ؒ سے کسی پوچھا تھا کہ موت سے زیادہ کوئی اذیت ناک ،درد ناک لمحہ ہوسکتا ہے آپ نے فرمایا ! ہاں جب کوئی سفید پوش اپنی مجبوری کی حالت میں کسی کم ظرف کے آگے ہاتھ پھیلائے۔ غریب کا سب سے بڑا مسئلہ روٹی ہے صاحب! روٹی کا کوئی مذہب نہیں ہوتا بھوک تہذیب کے آداب بھلادیتی ہے اور مفلسی وہ واحد مسلک ہے جس میں آپ بھوکے کے سامنے مندر کا پرشاد ،محرم کی نیاز،رجب کے کونڈے ،ربیع الاول کی شرینی ،دربار کا لنگر ،تبلیغی جماعت کی دال چپاتی رکھ دیں وہ بناسوال کیے چپ چاپ کھا جائے گا کیونکہ بھوک وہ واحد چیز ہے جوانسان کی عزت نفس کو ختم کردیتی ہے۔
اک طویل ترین مدت سے بذریعہ قلم دوسروں کے حقوق کی جنگ لڑنے والا آج خوداس قدر بے بسی اور لاچارگی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے کہ سوچ رہا ہوں کہ اپنے کرب کو زباں کہاں سے دوں ۔انبیاکرام ؑ نے بھی غربت ،افلاس اور تنگدستی سے اللہ کی پناہ مانگی ہے ۔بے شک یہ فقر انسان کو کفر تک لے جاتا ہے آج اپنے آپکو اپنے درد کو سربازار اس لیے لے آیا ہوں۔