ابھی حال ہی میں چینی سائنسدانوں کی جانب سے بتایا گیا کہ ایسے نئے شواہد ملے ہیں کہ ماضی میں مریخ پر پانی موجود تھا اور سرخ سیارے پر ہائیڈریٹڈ معدنیات موجود ہیں، جن سے مستقبل میں مریخ مشن کے دوران ممکنہ طور پر فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔سائنس ایڈوانسز جریدے میں شائع ہونے والی اس تحقیق نے یہ بھی اشارہ کیا کہ اس وقت اس جگہ پر ہائیڈریٹڈ منرلز اور ممکنہ طور پر زمینی برف کی شکل میں پانی کے کافی ذخیرے موجود ہیں۔اس سے قبل مارچ میں نیچر جیوسائنس جریدے میں شائع ہونے والی ایک اور چینی تحقیق میں بھی یہ انکشاف کیا گیا تھا کہ سرخ سیارے کے جس مقام پر چین کا روور اترا ہے وہاں ہوا اور ممکنہ طور پر پانی کے کٹاؤ کا تجربہ ہوا ہے۔یہ علامات بتاتی ہیں کہ مریخ پر پانی ماضی کے نقطہ نظر کے برعکس کافی طویل عرصے تک برقرار رہا ہوگا۔
مریخ مشن اور دیگر خلائی مشنز سے لے کر اس وقت سائنس و ٹیکنالوجی کا کوئی بھی شعبہ اٹھایا جائے تو چین آپ کو صف اول میں نظر آئے گا اور یہ بات توجہ طلب ہے کہ گزشتہ ایک دہائی میں چین نے اس شعبے میں بے مثال کمالات حاصل کیے ہیں۔یوں کہا جا سکتا ہے کہ چین کی سائنس ٹیکنالوجی نے گزشتہ 10 سالوں میں تاریخ کی کسی بھی دوسری دہائی کے مقابلے میں تیزی سے ترقی کی ہے۔
اس عرصے کے دوران سائنس ٹیکنالوجی کے میدان میں چین کی ترقی تاریخی اور جامع تو ہے ہی مگر اس کی بدولت آج چین اختراعات کی قوم اور عالمی اختراعی نظام کا اہم ترین حصہ بن چکا ہے۔اس کی سب سے اہم وجہ تحقیق اور ترقی یا جسے ہم مختصراً آر اینڈ ڈی کہتے ہیں،اس پر مسلسل توجہ دینا ہے۔اسی ایک دہائی کا جائزہ لیا جائے تو آج ملک کے سالانہ آر اینڈ ڈی اخراجات 2012 کے مقابلے میں 2.7 گنا بڑھ چکے ہیں، بنیادی تحقیق سے متعلق اخراجات اسی سال کے مقابلے میں 3.4 گنا زائدہیں۔
گلوبل انوویشن انڈیکس میں چین کا درجہ 10 گنا بڑھ چکا ہے اور اب وہ گزشتہ دہائی کے مقابلے میں 22 درجے بہتری کے ساتھ 12 ویں نمبر پر براجمان ہے، چین یہ کارنامہ سر انجام دینے والا واحد ترقی پزیر ملک ہے جبکہ بقیہ ٹاپ فہرست میں ترقی یافتہ ممالک کا غلبہ ہے۔بنیادی تحقیق اور تزویراتی سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی میں چین کی کامیابیوں کو بیان کرنے کے لیے حالیہ خلائی مشنز ، گہرے سمندر کی کھوج اور کوانٹم کمپیوٹنگ کی مثالیں دنیا کے سامنے ہیں۔
سائنس و ٹیکنالوجی کے انتظامی نظام میں اصلاحات گزشتہ دہائی میں چین کے لیے ایک اہم کام رہا ہے، کیونکہ چینی صدر شی جن پھنگ نے خود ذاتی دلچسپی لیتے ہوئے سائنس اور ٹیکنالوجی کے حوالے سے بے شمار ادارہ جاتی اصلاحات کی تجاویز اور اہم ہدایات جاری کی ہیں۔ اس ضمن میں چین نے سائنس ٹیکنالوجی کی ترقی کے لیے کاروباری اداروں کی طاقت کو بھی بھرپور طریقے سے استعمال کرنے میں نمایاں پیش رفت کی ہے۔قابل زکر امر یہ ہے کہ آر اینڈ ڈی کے حوالے سے مجموعی سرمایہ کاری کا تقریباً تین چوتھائی کاروباری اداروں نے فراہم کیا ہے۔ مختلف انٹرپرائزز نے قومی نوعیت کے 79 فیصد اہم تحقیقی منصوبوں میں حصہ لیا ہے اور مالی معاونت فراہم کی ہے۔
انہیں کوششوں کے ثمرات ہیں کہ چین میں ٹیکنالوجی کی تجارتی مارکیٹ کے حجم میں 2012 اور 2021 کے درمیان 5.8 گنا اضافہ ہوا ہے۔ 2021 میں مارکیٹ کا حجم 3.7 ٹریلین یوآن (تقریباً 550 بلین ڈالر) تک پہنچ چکا ہے، جو کہ ملک کے مجموعی آر اینڈ ڈی اخراجات سے بھی زیادہ ہے۔ملک نے تاریخ میں پہلی بار سائنس ٹیک ایڈوائزری اور اخلاقیات کے لیے قومی کمیٹیاں بھی تشکیل دی ہیں۔سائنس و ٹیکنالوجی کے نئے نظام نے سائنسدانوں کو پیچیدہ اور غیر ضروری سرخ فیتے سے آزاد کرنے کے لیے بجٹ اور تحقیقی سمت پر مزید کنٹرول بھی دیا ہے۔ تاہم، اس قدر ترقی کے باوجود چین یہ سمجھتا ہے کہ وہ سائنس ٹیکنالوجی کی ترقی میں اب بھی دنیا کے صف اول کے ممالک سے بہت پیچھے ہے اور مزید کوششوں کی ضرورت ہے۔چینی قیادت کوشش کر رہی ہے کہ اس نظام میں اصلاحات کے ذریعے کچھ دیرینہ مسائل کو حل کیا جائے اور صحیح سمت میں آگے بڑھتے ہوئے نہ صرف چینی عوام بلکہ دنیا بھر کے عوام کو سائنس و ٹیکنالوجی کے نئے ثمرات سے مستفید کیا جائے۔