اللہ تعالی نے انسان کو اگر بیماری دی یے تو اس کے لئے معالج کا بھی انتظام کیا ہے. ہمارے ہاں صرف ڈاکٹرز کو ہی معالج تصور کیا جاتا ہے۔ حالانکہ یہ خیالات ہرگز درست نہیں، ایک ایسا طبقہ بھی ہسپتالوں میں موجود ہے جو مریضوں کی حفاظت، دیکھ بھال، تیمارداری اور بروقت ڈاکٹر کی تجویز کردہ ادویات مریضوں کو لگانے کا کام کرتا ہے۔
عام طور پر اس طبقہ کو یکسر نظرانداز کر دیا جاتا ہے، جبکہ تاریخ کے دریچوں میں جھانکا جائے تو نرسز کی انسانی زندگیاں بچانے کی بہت سی لازوال داستانیں موجود ہیں. جیسے ہر چیز کو عالمی سطح پر پریزائی دینے اور اس بابت آگاہی دینے کے لئے ایک دن مقرر کیا گیا ہے اسی طرح 1953ء میں 12 مئی کو نرسوں کا عالمی دن منانے کا اعلان کیا گیا. مملکت خداداد پاکستان ہو یا دنیا کے دوسرے ممالک، ہر قسم کی قدرتی آفات میں انسانی زندگیاں بچانے کے لئے نرسیں ہراول دستہ ہیں۔
جب کرونا وائرس نے دنیا کو اپنی لپیٹ میں لینا شروع کیا تو پوری دنیا میں خوف کی ایک لہر دوڑ گئی، لوگ کرونا مریضوں کو اچھوت سمجھنے لگے، غیر تو دور اپنوں نے بھی کرونا مریضوں سے کنارہ کر لیا، اس پریشانی کے عالم میں جہاں پاکستان میں 1122 ایمرجنسی سروس نے مریضوں کو ہسپتال پہنچانے کا کام احسن طریقے سرانجام دیا وہیں نرسوں نے اپنی جان پر کھیل کر ان مریضوں کی نگہداشت کی تا کہ یہ مریض بھی زندہ رہ سکیں، مجموعی طور پر کرونا وبا کے دوران پاکستان میں 115 نرسیں جان کی بازی ہار گئیں. اتنی زیادہ تعداد میں نرسوں کا اس دنیا فانی سے رخصت ہوجانا ایک لمحہ فکریہ ہے، تاہم پھر بھی قوم کی بیٹیوں نے ہمت نہیں ہاری اور اپنی مستقل مزاجی اور بلند حوصلے سے یہ بات ثابت کر دی کہ آندھی ہو یا طوفان، زلزلہ ہو یا کرونا کی وبا پاکستانی نرسسز ہر وقت ہر دم قوم کی خدمت کرنے کو تیار ہیں. کٹھن سے کٹھن حالات میں بھی ان اصنافِ نازک نے کبھی اپنی ڈیوٹی سرانجام دینے سے انکار نہیں کیا، ان کی انہی خدمات کی بناء پر 2020ء کو نرسوں کا عالمی سال قرار دیا گیا، کیوں کہ اسی سال کرونا کی وباء پوری دنیا کو لپیٹ میں لئے ہوئے تھی۔ ایک ایک قبر میں کئی کئی مردے دفنائے جا رہے تھے مگر یہ نرسسز استقامت کے ساتھ اپنے انجام سے بے پرواہ خدمات سرانجام دے رہی تھیں۔
نرسنگ کے مقدس پیشے کی بنیاد ایک اطالوی خاتون فلورنس نائٹنگیل نے سنہ 1860 ء میں رکھی، فلورس کو ابتدائی دور میں بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا کیوں کہ اُس دور میں بھی معاشرے میں اس پیشے کو باعزت نہیں سمجھا جاتا تھا. اس کے باوجود اس نے اس شعبے میں مہارت حاصل کی. نرسوں کا عالمی دن اس پہلی نرس کو عزت و تکریم دینے کے لئے اس کے یوم پیدائش پر منایا جاتا ہے، عالمی ادارہ صحت کی ایک شائع رپورٹ کے مطابق اس وقت دنیا میں تقریباً 2 کروڑ 80 لاکھ کے افراد نرسنگ کے شعبے سے منسلک ہیں جن میں ایک قلیل تعداد مرد نرسسز کی بھی ہے تاہم دنیا کے طبی نظام کو مکمل فعال کرنے کے لئے مزید 59 لاکھ نرسز درکار ہیں۔
اس وقت دنیا میں ہر ایک ہزار آبادی پر صرف 3 نرسز یا مڈوائفس دستیاب ہیں جو کہ واقعی ایک قلیل تعداد ہے. تاہم یہ شعبہ اب بھی بنیادی سہولیات اور مراعات کی کمی کا شکار ہے. جبکہ اگر پاکستان کی بات کی جائے تو اس میں 62 ہزار 651 نرسز کام کر رہی ہیں جو کہ انتہائی قلیل مقدار میں ہیں اس تناسب سے اگر بلحاظ آبادی دیکھا جائے تو ہر 10 ہزار آباد پر صرف 5 نرسز دستیاب ہیں. ملکِ پاکستان میں تقریباً 162 مراکز نرسز کی بنیادی تعلیم فراہم کر رہے ہیں جس میں سالانہ 2 ہزار نرسز تربیت لے کر میدان عمل میں آتی ہیں۔
نرسنگ کے شعبہ میں بہت سے کالی بھیڑیں موجود ہیں جو اس مقدس شعبہ کی نیک نامی کی بجائے بدنامی کا باعث بنتی ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ نرسز کو درپیش مسائل کا بروقت حل نکالا جائے، مروجہ نرسنگ کورس کی حامل خواتین و حضرات کو ہسپتالوں میں مناسب نوکریوں کا بندوبست حکومتی سطح پر کیا جائے کیوں کہ بہت سی نرسز BSN کرنے کے باوجود گورنمنٹ بھرتیاں نہ ہونے کی وجہ سے قلیل تنخواہ پر پرائیوٹ ہسپتالوں میں خوار ہونے پر مجبور ہیں۔
ہم سب نے مل کر یہ اپنا ملک چلانا ہے،
نرسز کو آگے بڑھانا ہے، پاکستان بچانا ہے