اس وقت دنیا کو درپیش ایک بڑا مسئلہ موسمیاتی تبدیلی کا بھی ہے جس سے دنیا کے تقریباً سبھی ممالک متاثر ہو رہے ہیں۔پاکستان کے تناظر میں دیکھا جائے تو خلاف معمول گرمی کی شدت میں اضافے سے کئی مسائل نے جنم لیا ہے اور گلگت بلتستان کے علاقے ہنزہ میں گلیشئر کے پگھلنے سے آنے والی تباہی،اس بات کی علامت ہے کہ ہمیں گلوبل وارمنگ سے نمٹنے کے لیے فوری اقدامات اٹھانا ہوں گے۔ ماہرین پاکستان میں بڑھتی ہوئی گرمی سے اس باعث بھی پریشان ہیں کہ یہ صورتحال انسانی زندگی کے لیے تشویشناک ہے۔
دوسری جانب دنیا کے متعدد ممالک نے ایسے عملی اقدامات متعارف کروائے ہیں جو نہ صرف ماحول دوست ہیں بلکہ انسانی ترقی اور فطرت سے ہم آہنگ بھی ہیں۔اس ضمن میں توانائی کی پیداوار کو اولین اہمیت حاصل ہے کیونکہ اس عمل کا براہ راست تعلق ماحولیات سے ہے۔شفاف ذرائع سے توانائی کی پیداوار جہاں گلوبل وارمنگ کے خطرے کو کم کرنے میں معاون ہے وہاں پائیدار اور محفوظ ترقی کی ضمانت بھی ہے۔یہاں چین کو دیکھا جائے تو ملک میں شفاف توانائی کی پیداوار میں مسلسل ترقی ہو رہی ہے۔ملک میں توانائی کی مجموعی کھپت میں شفاف توانائی کی جانب تیزی سے پیش قدمی جاری ہے۔ توانائی کی مجموعی کھپت میں غیر فوسل توانائی کی کھپت کا تناسب مسلسل بڑھ رہا ہے۔
یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ چین سبز اور کم کاربن صنعتی پالیسیوں میں مسلسل بہتری لا رہا ہے۔ملک میں نئی توانائی، ہائیڈروجن توانائی، اور نئی توانائی ذخیرہ کرنے جیسی نئی صنعتوں کی ترقی میں تیزی آئی ہے۔ میگا ونڈ پاور، فوٹو وولٹک پلانٹس اور جدید نیوکلیئر پاور جیسے کئی بڑے منصوبوں کی تعمیراتی سرگرمیاں جاری ہیں۔ ملک میں نئی توانائی والی گاڑیوں کی مجموعی پیداوار اور فروخت میں بھی زبردست اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ساتھ ساتھ چینی حکام توانائی کے کلیدی منصوبوں میں سرمایہ کاری کو مسلسل بڑھا رہے ہیں جو توانائی کی اعلیٰ معیاری ترقی کے فروغ کے ساتھ ساتھ چینی معیشت کو مضبوط قوت فراہم کر رہی ہے۔
چین کی جانب سے شفاف توانائی کی کوششوں کو آگے بڑھانے کی مزید بات کی جائے تو دریائے یانگسی پر بنائے گئے چھ ہائیڈرو پاور اسٹیشنوں سے مجموعی طور پر بجلی کی پیداوار تین ٹریلین کلو واٹ فی گھنٹہ سے تجاوز کر چکی ہے۔یوں دریائے یانگسی پر تھری گورجز ڈیم نے دنیا کا سب سے بڑا ‘ فاف توانائی کوریڈورتشکیل دیا ہے۔ جولائی 1981 میں پہلے یونٹ کے فعال ہونے کے بعد سے، چھ ہائیڈرو پاور اسٹیشنوں نے 910 ملین ٹن معیاری کوئلے کے مساوی بجلی پیدا کی ہے، جس سے فضا میں 240 ملین ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کو روکا گیا ہے۔
اسی طرح چین نے گزشتہ 10 سالوں کے دوران ماحولیاتی تحفظ اور بحالی میں لوگوں کی ماحولیات سے متعلق آگاہی بڑھانے اور متعلقہ قوانین و ضوابط کو نافذ کرنے کے لیے ملک گیر مہمات چلا کر نمایاں کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ گزشتہ دہائی کے دوران، چین نے ماحولیاتی تحفظ کے لیے اپنی قانون سازی کو بہتر بنایا ہے، جس میں تحفظ جنگل کے قانون اور گراس لینڈ کے قانون پر نظر ثانی بھی شامل ہے۔دریں اثنا، مرکزی حکومت نے پہاڑوں، دریاؤں، جنگلات، جھیلوں اور سبزہ زاروں کے ماحولیاتی تحفظ اور بحالی کے لیے 25 پائلٹ پروجیکٹس میں تقریباً 7.75 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے۔
جون 2020 میں چین نے ایک 15 سالہ منصوبے کی نقاب کشائی کی جس میں 2021 سے 2035 تک کلیدی ماحولیاتی نظام کی حفاظت اور بحالی کے لیے بڑے منصوبے شامل ہیں، یوں ماحولیاتی تحفظ اور حیاتیاتی تنوع کے تحفظ کے لیے ڈھال کو مضبوط کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔منصوبے کے مطابق،چین نے یہ اہداف طے کیے ہیں کہ 2035 تک ملک میں جنگلات کی کوریج کو 26 فیصد تک بڑھایا جائے گا، سبزہ زاروں کی کوریج کے تناسب میں 60 فیصد تک اضافہ کیا جائے گا اور نیچر ریزرو کو ترقی دی جائے گی۔ چین نے پہلے ہی 230,000 مربع کلومیٹر پر محیط قومی پارکس کی اپنی پہلی کھیپ قائم کر دی ہے۔ یہ پارکس چین میں پائی جانے والی جنگلی حیات کی 30 فیصد اہم انواع کا احاطہ کرتے ہیں جبکہ رواں سال، قومی پارکس کی ایک دوسری کھیپ سامنے آنے کی توقع ہے۔
یہ تمام اقدامات ظاہر کرتے ہیں کہ چین فطرت کے تحفظ کی کوششوں کو احسن طور پر آگے بڑھا رہا ہے اور انہی ماحول دوست پالیسیوں کے ثمرات ہیں کہ ملک کا مجموعی قدرتی ماحولیاتی نظام مزید مستحکم اور بہتر ہوتا جا رہا ہے، جو پائیدار ترقی کی مضبوط بنیاد ہے۔