تھیلیسیمیا کب شروع ہوا؟
کہا جاتا ہے کہ سکندر اعظم یہ بیماری اپنے ہمراہ یونان سے لایا تھا۔ جس سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ بہت قدیم بیماری ہے۔ تھیلیسیمیا ایک یونانی لفظ ’تھیلس‘ سے اخذ کیا گیا ہے جس کے معنی سمندر کے ہیں۔اس کے ابتدائی کیسز بحیرہ روم کے اردگرد پائے گئے تھے اسی لئے اسے بحیرہ روم انیمیا بھی کہا جاتا ہے۔ شروع میں یہ گمان تھا کہ یہ بیماری ایک ہی خطے سے متعلقہ ہے مگر اب یہ دنیا کے تقریباً ہر خطے میں موجود ہے۔
یہ مرض دیگر امراض مثلاً ٹی بی ، نزلہ زکام کی طرح کسی دوسرے کو نہیں لگتا۔ اسکا ساتھ کھانے پینے،ایک علاقے میں سکونت اختیار کرنے، تعلیم اداروں، آبائی پیشہ، کمپیوٹر، جراثیم کی منتقلی ، آب و ہوا یا کپڑوں وغیرہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
تو یہ بیماری ہے کیا؟ یہ بیماری کیسے ہوتی ہے؟
تھیلیسیمیا خون کی خرابی سے متعلقہ بیماری ہے جس میں جسم ، صحت مند سرخ خلیات بنانے سے قاصر ہوتا ہے اور سفید خلیات کی تعداد زیادہ ہو جاتی ہے۔ یہ خون میں ہیموگلوبن کا پیدائشی نقص ہوتا ہے ۔ یہ موروثی مرض ہے، جو جینز کے ذریعے والدین سے بچوں میں منتقل ہوتا ہے۔ اگر والدین میں سے کوئی ایک یا دونوں اس مرض میں مبتلا ہوں تو پیدا ہونے والا بچہ یقینی طور پر کسی ایک قسم میں مبتلا ہو سکتا ہے۔ والد یا والدہ اگر تھلیسیمیا مائنر ہیں تو بچے میں وہی منتقل ہو گا۔( بعض دفعہ بچے بالکل صحت مند بھی ہوسکتے ہیں۔)
اس کی تین اقسام ہیں
1- تھیلیسیمیا مائنر(صغیرہ)
2- تھیلیسیمیا انٹر میڈیا(متوسط)
3- تھیلیسیمیا میجر(کبیرہ)
تھیلیسیمیا مائنر(صغیرہ):- اس کیس میں والدین میں سے ایک فرد نارمل جبکہ دوسرا بردار ہوتا ہے۔ بچے میں ایک جین نارمل اور ایک ایبنارمل منتقل ہوتا ہے۔تھیلیسیمیا مائنر سے متاثرہ افراد جسمانی اور ذہنی طور پر صحت مند ہوتے ہیں۔ ان کی نشوونما اور اوسط عُمر بھی نارمل ہوتی ہے۔ اِس لیے انھیں اِس بات کا علم ہی نہیں ہوتا کہ اُن کے جین میں کوئی نقص ہے اور یہی لاعلمی شادی کے بعد اُن کے یہاں جنم لینے والے بچّوں میں اس مرض کے منتقل ہونے کا سبب بن سکتی ہے۔ یاد رہے تھلیسیمیا مائنر ساری زندگی مائنر ہی رہتا ہے تاوقتیکہ یہ کسی دوسرے مائنر کے ساتھ مل کر اگلی نسل میں منتقل نہ ہو جائے۔
تھیلیسیمیا انٹر میڈیا( متوسط):-
اس قسم میں ہیموگلوبن کسی حد تک کنٹرول رہتا ہے اور خون لگوانے کی ضرورت کم پیش آتی ہے۔ البتہ بہت سی دوسری پیچیدگیاں پائی جا سکتی ہیں۔
تھیلیسیمیا میجر(کبیرہ) :-
اگر دونوں تھلیسیمیا مائنر ہیں تو بچے میں میجر تھیلسمیا منتقل ہو سکتا ہے۔ ہر حمل میں اس کے چانس 50 فیصد ہوتے ہیں۔ ماں باپ دونوں اس مرض میں مبتلا ہوں تو نومولود میں تھیلیسیمیا میجر جنیاتی طور پر منتقل ہو جاتا ہے یہ انتہائی خطرناک قسم ہے۔ اس میں مریض کو ہر ماہ دو بار خون کے انتقال کی ضرورت ہوتی ہے۔ساری زندگی خون کی منتقلی اور ادویات کا محتاج ہوتا ہے۔ بصورت دیگر وہ زندگی کی جنگ ہار سکتا ہے۔
تھیلیسیمیا کبیرہ سے متاثرہ بچے شروع میں بالکل عام بچوں کی طرح ہوتے ہیں لیکن جلد ہی اینیمیا (خون میں سرخ ذرّات کی کمی)، ہڈیوں کی ساخت میں خرابی، خاص طور پر چہرے میں، تھکن، جسم کے بڑھنے میں کمی یا فقدان، سانس کا پھولنا اور جِلدکا پیلا ہونا جیسی علامات سامنے آ جاتی ہیں۔
تھیلیسیمیا کا کیا علاج ہے؟
تھیلیسیمیا کا بدقسمتی سے کوئی حتمی علاج تاحال دریافت نہیں ہوا۔ اس مرض کا شکار زیادہ تر بچے ہوتے ہیں جن کی زندگی بہت تکلیف دہ گزرتی ہے اور عمر کی ایک حد کو بمشکل پہنچ پاتے ہیں۔ بچوں کے لئے تو یہ بیماری باعث اذیت ہے مگر ان کے والدین بھی اولاد کے ساتھ ہر روز مرتے ہر روز جیتے ہیں۔
مریض کے لیے متواتر انتقال خون کے عمل سے گزرنا ہوتا ہے۔جو انتہائی تکلیف دہ ہوتا ہے۔ کچھ ادویات ہیں جو تکلیف کو کم کرتی ہیں ان کا استعمال کیا جا سکتا ہے یا حرام مغز کی پیوند کاری کے ذریعے بھی اس کا علاج ممکن ہے۔ یہ علاج نہ صرف تکلیف دہ ہے بلکہ بہت زیادہ مہنگا ہے اور یہ سو فیصد کامیاب بھی نہیں ہوتا۔
پاکستان میں تھیلیسیمیا کی کیا صورتحال ہے؟
پاکستان کے تمام صوبوں خصوصا خیبرپختونخواہ اور سندھ میں کثیر تعداد اس مرض میں مبتلا ہے۔ مجموعی طور پر پاکستان میں تھیلیسیمیا کے مریضوں کی تعداد ایک کروڑ سے زیادہ ہے اور ہر سال پانچ ہزار بچے اس موذی مرض کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں۔جس میں روز افزوں اضافہ ہو رہا ہے اور ایک اندازے کے مطابق 2025 تک یہ تعداد ڈیڑھ کروڑ ہو جائے گی۔ جبکہ تھیلیسیمیا مائنر کے مریض ملکی آبادی کا پانچ سے سات فیصد ہیں۔
دو سال کی عمر میں تھیلیسیمیا کی تشخیص ہو جاتی ہے اس مرض میں مبتلا 99% بچے بمشکل 10 سال کی عمر کو پہنچتے ہیں۔
اس موذی مرض سے بچاؤ کا سب سے اہم طریقہ یہ ہے کہ شادی سے قبل لڑکے اور لڑکی کا تھیلیسیمیا ٹیسٹ کرایا جائے۔اس سلسلے میں قانون سازی کی جانی چاہیئے۔
ہر سال مئی کے آغاز میں تھلیسیمیا کا دن منایا جاتا ہے۔ ہم سب پر یہ فرض عائد ہوتا ہے لوگوں میں اس کا شعور اجاگر کریں ۔
اگر ہم صحت مند ہیں تو خون کا عطیہ ضرور دیں کیونکہ
جس نے ایک جان کو بچایا اس نے گویا پوری انسانیت کو بچایا۔ (القرآن)
اس آگاہی مہم میں ہم محسن پاکستان ڈاکٹر عبد القدیر خان صاحب مرحوم کی استدعا کو ضرور یاد رکھیں۔
میری تمام پاکستانیوں سے دلی درخواست ہے کہ خدا کے لئے برادری، خاندان میں شادی سے پہلے ضرور بلڈ ٹیسٹ (اسکریننگ) کرالیں۔ اگرچہ سندھ، پنجاب کی اسمبلیوں سے پاس کردہ بلوں میں یہ شرط ہے کہ تمام افراد کے قومی شناختی کارڈ پر تھیلیسیمیا کے ٹیسٹ کا اندراج لازمی ہونا چاہئے، یہ اطلاع بی فارم میں بھی درج ہونا چاہئے اور نکاح کی شرائط میں یہ شرط بھی لازمی ہونا چاہئے اور تھیلیسیمیا کے ٹیسٹ کے بغیر نکاح کی ادائیگی جرم مانا جانا چاہئے۔ یہ سب آپ کی، قوم کی بھلائی و صحت مندی کیلئے ، آپ کو ذہنی عذاب اور بچوں کو شدید تکلیف سے بچانے کے لئے ضروری ہے۔ یہ بیماری پولیو سے بھی زیادہ مضر ہے کہ اس کے علاج پر بے حد خرچ آتا ہے اور مریض کو بے حد تکلیف ہوتی ہے۔