اولاد اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے۔ قرآن میں حضرت زکریا علیہ السلام اور حضرت ابرہیم علیہ السلام کو اولاد کی خوشخبری سنائی گئی۔
انسان کسی بھی مذہب اور قوم سے تعلق رکھتا ہو، اولاد کے لیے اس کے دل میں محبت کا سمندر ہوتا ہے۔ حتیٰ کہ جانور کو بھی اپنی اولاد سے با انتہا محبت ہوتی ہے۔ اس کا خیال رکھنا، اس کی حفاظت کرنا، اس کے لاڈ اٹھانا، اس کی خوراک کا انتظام کرنا، سردی گرمی سے بچانا اپنی ذمہ داری سمجھتے ہیں۔ انسان تو اپنی اولاد سے اس سے کہیں زیادہ محبت کرتے ہیں۔ بچوں کی تعلیم و تربیت ان کے جذبات کا خیال رکھنا۔ پاکستانی معاشرے میں تو شادی بیاہ، روزگار اور پھر ان کی اگلی نسلوں کی زمہ داری تک بچوں کے ساتھ اپنی ہمت اور استطاعت کے ساتھ کھڑے رہنا۔ اولادکی نافرمانی اور بدتمیزی کے باوجود ان کے لئے دعائے خیر کرنا والدین کی محبت کا اعجاز ہے۔
موجودہ دور میں والدین کی یہ محبت انتہا پسندی کی طرف چلی گئی ہے۔ بہت سارے فرائض اور زمہ داری میں عدم توازن کے باعث والدین اپنی اولاد کے لیے provider کی حیثیت رکھتے ہیں۔ جن کا کام اولاد کو provide کرنا ہے وہ بھی ان کی مادی ضروریات، اخلاقی اور روحانی تربیت دینے کا وقت والدین کے پاس اس لیے نہیں ہے کہ مادی ضروریات کی لامحدود فہرست نے انہیں اس قابل چھوڑا ہی نہیں۔ جہاں والدین اس تربیت کی کوشش کرنا چاہتے ہیں تو اولاد سننے اور سمجھنے کو تیار نہیں کیونکہ مادیت کی چکا چوند نے ان کی آنکھوں اور دلوں پر پردے ڈال دیے ہیں۔
کپڑے، جوتے، بیگ سے لے کر چھوٹی بڑی ہر چیز برانڈڈ، نئے سے نئے ماڈل کا موبائل، بائیک سے گاڑی، ہر چیز اعلیٰ سے اعلیٰ، dine out اور take away ان سب کی بہتات نے زندگی کو خواہشات کا غلام بنا دیا ہے، کثرت وہ بھی لامحدود۔ ان ساری زمہ داریوں میں اولاد کا کیا رول ہے؟ زندگی میں والدین جب تک supplier اور provider کا رول ادا کر سکتے ہیں انہیں جذباتی طور پر بلیک میل کرنا، جب خود زمہ داریاں اٹھانے کا وقت آئے تو والدین کو نظر انداز کرنا، پاکستانی معاشرے میں اولڈ ہاؤسز آباد ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ جہاں اولڈ ہاؤس میں نہیں بھیجا جاتا وہاں والدین کو گھر کے کونے میں محدود کر دیا جاتا ہے۔
ایسا ہر گھر میں نہیں ہوتا۔ یقیناً ایسے گھر اور خاندان موجود ہیں جہاں بزرگوں کو عزت دی جاتی ہے اور ان کا مان رکھا جاتا ہے اور انہیں اپنے لیے رحمت سمجھا جاتا ہے۔ ہمارا دین والدین کی بہت سی قربانیوں کے بدلے اولاد سے صرف فرمانبرداری اور اطاعت کا متقاضی ہے۔ عمر کا ایک دور آتا ہے جب والدین کی مادی اور مالی ضروریات محدود ہو کر رہ جاتی ہیں۔ انہیں صرف محبت اور توجہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن اولاد سے اطاعت کا تقاضہ نو عمری سے ہی ہوتا ہے۔
حضرت یحییٰ علیہ السلام کے بارے میں سورۂ مریم میں ارشاد کچھ یوں ہوا ہے کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام کو بچپن سے دانائی عطا کی گئی۔ وہ رحمدل، پاکیزہ اور پرہیز گار تھے، والدین سے اچھا سلوک کرتے تھے، سرکش اور نافرمان نہیں تھے۔ یہ ہیں وہ خصوصیات جو ہمارا دین ایک آئیڈیل نوجوان کے بارے میں دے رہا ہے۔
ایک مسلم معاشرے میں ایسا ممکن نہیں ہے کہ بچے ماں اور بہن بھائیوں کو اس بات پر قتل کر دیں کہ وہ موبائل گیم کھیلنے سے منع کرتے ہیں۔ ایک مسلم معاشرہ جہاں بچوں کی تربیت دینی شعار کے مطابق کی جائے وہاں بچیاں اپنی زندگی کر بڑے بڑے فیصلوں پر والدین کو اعتماد میں لیے بغیر ان کی محبتوں کو ان کے احسانوں کو پیروں کے نیچے کچل کر گھروں سے نہیں نکل جاتیں۔ یہ سوچے بغیر کہ دنیا میں کوئی اور ایسا نہیں ہے جو انہیں اپنے پروں میں چھپا کر دنیا کے طوفانوں سے بچا لے۔ لمحۂ فکریہ یہ ہے کہ یہ سب کچھ اس معاشرے میں ہو رہا ہے۔ والدین اپنی زمہ داریوں کو پورا کر رہے ہیں لیکن اولاد جس کی انگلیوں کے ایک کلک پر دنیا بھر کی خبریں اور معلومات موجود ہیں کیا یہ بات نہیں جانتی کہ کون سا معاشرہ مشرق و مغرب میں ایسی اولاد کو خراجِ تحسین پیش کرتا ہے جو اپنی جائز، نا جائز خواہشات کی تکمیل کے لیے گھر اور والدین کی عزت کو ٹھوکروں پر رکھ لیتی ہے۔ دینی شعار، معاشرتی روایات، اخلاقی اقدار بھی کسی تہذیب یافتہ معاشرے کا حصہ ہوتے ہیں۔
اپنے خاندانی روابط کو مضبوط بنائیں۔ رشتوں کی قدر کریں اور ان کی اہمیت کو سمجھیں۔ والدین کی ساری محنت اولاد کو معاشرے کا با شعور اور مہذب فرد بنانے کے لیے ہوتی ہے۔ والدین کی ہر خوشی اپنی اولاد سے ہوتی ہے۔ اولاد اس بات کو سمجھے اپنی اور اپنے والدین کی عزت، عزتِ نفس اور وقار کا احساس کرے۔ خواہشات کو بے لگام چھوڑنے کے بجائے اس کو لگام دینے کی کوشش کرے۔ خواہشات بہت حاوی ہو جائیں، مشورہ کریں، اپنے بڑوں سے اپنے آس پاس کے لوگوں سے۔ سب سے پہلے والدین اور اساتذہ سے۔
بیٹوں اور بیٹیوں سے التجا ہے کہ کوئی بھی غلط قدم اٹھانے سے پہلے اس محبت کا ضرور سوچیں جو اللہ نے اس کائنات میں آپ کے اور آپ کے والدین کے دلوں میں ایک دوسرے کے لیے ڈالی ہے۔ آپ کی پیدائش پہ جو خوشیاں انہوں نے منائی تھیں ان کو غم میں نہ بدلیں۔ اللہ تعالیٰ ہماری نسلوں کی حفاظت فرمائے اور انہیں ہدایت دے۔ آمین