دنیا کی بلند ترین چوٹی جسے دنیا ماؤنٹ ایورسٹ کے نام سے جانتی ہے، چین میں اس کا نام کوہ چومو لانگما ہے۔ اس چوٹی کو سر کرنا انتہائی مشکل کام ہے۔ ہر سال بیسیوں مہمات اس کام پر روانہ ہوتی ہیں۔ کچھ کامیاب ہوتے ہیں، کچھ راستے سے وآپس لوٹ آتے ہیں اور کچھ اپنے خواب کی جستجو میں ہمیشہ کے لیے اس کے دامن میں سو جاتے ہیں۔ ایسے جان جوکھوں کے سفر پر چین کے محققین نے کامیابی کا ایک نیا باب رقم کیا اور کوہ چومو لانگما پر دنیا کا پہلا خود کار موسمیاتی اسٹیشن نصب کردیا۔
اپنی مہم کے دوران چینی سائنسی محققین نے پانچ مئی بدھ کے روز 8,800 میٹر سے زیادہ کی بلندی پر ایک خودکار موسمیاتی مانیٹرنگ اسٹیشن قائم کیا، جو اسے چین-نیپال کی سرحد پر واقع ماؤنٹ چومولانگما پر اپنی نوعیت کا دنیا کا سب سے اونچا مقام بناتا ہے۔پہاڑ کے جنوب میں 8,430 میٹر کی اونچائی پر اس نظام کا بیس اسٹیشن قائم کیا گیا ہے، جسے 2019 میں برطانوی اور امریکی سائنسدانوں نے قائم کیا تھا، چینی اکیڈمی آف سائنسز کے تحت کام کرنے والے تبت پلیٹیو ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے مطابق یہ سینٹر دنیا کا سب سے بلند مقام بن گیا ہے۔
نئے موسمیاتی مرکز سمیت ، کوہ چومولانگما پر آٹھ ایلیویشن گریڈینٹ میٹرولوجیکل اسٹیشن قائم کیے گئے ہیں جو کہ 8,848.86 میٹر کی بلندی پر دنیا کی بلند ترین چوٹی پر چین کی نئی جامع سائنسی مہم کا ایک اہم کام ہے۔آئی ٹی پی کی ایک محقق چاؤ ہوابیاؤ نے کہا کہ مانیٹر کیا گیا موسمیاتی ڈیٹا سائنسی تحقیق اور کوہ پیمائی کی سرگرمیوں میں مدد کرے گا۔ بدھ کو بھی سائنسی مہم جو کے 13 ارکان کوہ چومولانگما کی چوٹی پر پہنچے۔ مہم میں شریک ارکان نے پہلی بار اعلیٰ درستگی والے ریڈار کا استعمال کرتے ہوئے برف کی ساخت اور برف کی موٹائی کی پیمائش کی، اور مزید تحقیق کے لیے نمونے اکٹھے کیے تھے۔
چار مئی منگل کے روز چین کی سائنسی تحقیقی ٹیم کے 13 ارکان نے ماؤنٹ ایورسٹ کو کامیابی کے ساتھ سر کیا تھا اور چوٹی پر کئی سائنسی تحقیقات مکمل کیں۔ یہ پہلا موقع ہے کہ چین کی سائنسی تحقیقات سطح سمندر سے 8000 میٹر کی بلندی پر مکمل کی گئی ہیں۔ 1950 کی دہائی سے، چین نے ماؤنٹ ایورسٹ پر چھ سے زیادہ سائنسی تحقیقات کی ہیں۔ یہ مشن کل 5 سائنسی مشن کی ٹیموں پر مشتمل ہے جن کے ارکان کی تعداد 270 سے زائد ہے ۔ یہ اب تک کی سب سے وسیع کوریج کی حامل،سب سے زیادہ سائنسی ریسرچ ارکان پر مشتمل جدید ترین آلات سے لیس چینی ایورسٹ سائنسی ریسرچ مہم ہے۔”ارتھ سمٹ مشن 2022″ کی چینی سائنسی مہم کی ٹیم نے کے ارکان دو ٹکڑیوں میں یہاں تک پہنچے ، پہلی ٹیم دوپہر بارہ بجکر بائیس منٹ پر چوٹی پر پہنچی اور باقی ٹیم تقریباً ایک گھنٹے بعد ان کے ساتھ شامل ہوئی۔
“پیک مشن” نامی ماؤنٹ ایورسٹ سائنسی تحقیقی مہم 28 اپریل کو شروع ہوئی ۔ موجودہ سائنسی مہم میں 5 سائنسی ٹیموں کے 16 سائنسی گروپس کے 270 سے زائد ارکان شامل ہیں جن کا تعلق ویسٹرلی مون سون سائنرجی، ایشیئن واٹر ٹاور چینجز، ماحولیاتی نظام اور حیاتیاتی تنوع، انسانی سرگرمیوں میں تبدیلیاں، اور جیو ڈائنامک سروے سمیت دیگر شعبوں سے ہے۔ اطلاعات کے مطابق چین نے گزشتہ صد ی کے پچاس کے عشرے سے آج تک ماؤنٹ ایورسٹ پر 6 سے زائد سائنسی مہمات انجام دی ہیں۔ حالیہ سائنسی مہم کے دوران جامع سائنسی تحقیق کا انتظام کیا گیا ہے جس کے دوران 8,000 میٹر کی بلندی کو عبور کرتے ہوئے پہلی مرتبہ ماؤنٹ ایورسٹ کے بلند ترین مقام پر پہنچا جائے گا۔ یہ ماؤنٹ ایورسٹ کے علاقے میں انتہائی بلندی پر جامع سائنسی تحقیق کا ایک معجزہ ہو گا۔
گلیشیر کی ساخت اور یہاں پھیلنے والی آلودگی پر تحقیق کے لیے بھی ایک ٹیم اس مشن کے ساتھ موجود ہے۔ اس ٹیم کے ارکان یہاں ایک ماہ تک قیام کریں گے اور یہاں ماحولیاتی آلودگی کے نقصانات، برف پگھلنے کی رفتار ، گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج سمیت دیگر اہم موسمیاتی امور پر تحقیق کریں گے۔
پیکنگ یونیورسٹی کے کالج آف انوائرمینٹل سائنسز اینڈ انجینئرنگ کی ٹیم انتہائی بلندی پر واقع اس ماحول کے انسانی صحت پر اثرات کی تحقیق کرے گی۔ اس ادارے کی ستائس رکنی ٹیم مختلف اونچائیوں پر کام کرنے والے 50 رضاکاروں کی صحت کی حالت کی نگرانی کر رہی ہے: جو 5,200 میٹر، 5,800 میٹر، 6,350 میٹر اور 8,848 میٹر کی بلندی پر تعینات ہیں۔ اپنی طرز کی اس کثیر الجہتی سائنسی تحقیقی مہم نے پوری دنیا کی توجہ اپنی جانب مبذول کی ہے۔