حضرت ابراہیم ؑ کا شہر مکہ کو امن کا گہوارہ بنانے کی دعا کرنا درحقیقت اس حرمت والے شہر سے محبت کی علامت ہے۔اور (یاد کیجئے )جب ابراہیم ؑ نے عرض کیا اے میرے رب اس شہر(مکہ)کو جائے امن بنادے اور مجھے میرے بچوں کو اس (بات)سے بچالے کہ ہم بتوں کی پرستش کریں (ابراہیم35:14)اللہ تعالیٰ نے دعا قبول فرمائی پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا !جو بھی اس میں داخل ہوگا اسے امان حاصل ہے(آل عمران97)۔
مدینہ منورہ روئے زمین کی مقدس سرزمین ہے۔ مسلمانوں کے نزدیک دوحرم ہیں مکۃالمکرمہ اور مدینہ منورہ مکہ کے حرم ہونے میں کوئی اختلاف نہیں البتہ بعض الناس نے مدینہ کے حرم ہونے کا انکار کیا حالانکہ مدینہ منورہ کا حرم ہونا صحیح احادیث سے ثابت ہے۔ حضرت بن مالک ؓ فرماتے ہیں کہ خیبر سے واپسی پر جب ہم مدینہ کے قریب آئے تو آنحضرت ؐ نے فرمایا یا اللہ جس طرح ابراہیم ؑ نے مکہ کو حرم بنایا (جو چیز قابل تکریم ہو وہ حرم کہلاتی ہے)اسی طرح میں بھی ان دوپہاڑوں کے درمیانی علاقہ کو حرم قرار دیتا ہوں (صحیح بخاری)حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ ہمارے پاس اللہ تعالیٰ کی کتاب اور اس صحیفہ کے علاوہ کوئی چیز نہیں ۔یہ صحیفہ اللہ کے نبیؐ کی طرف سے ہے اوراس میں ہے کہ مدینہ منورہ جبلِ عیر سے جبلِ ثور تک حرم ہے۔ جو شخص ان حدود کے اندر غلط کام کرے یا غلط کار کو پناہ دے اس پر اللہ کی، فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی لعنت اور اللہ تعالیٰ اس کی کوئی نفلی یافرضی عبادت قبول نہ فرمائیں گے۔
حضرت سہل بن حنیف ؓ فرماتے ہیں کہ آنحضرت ؐ نے اپنے ہاتھ مبارک سے مدینہ منورہ کی طرف اشارہ کرکے فرمایاکہ یہ حرم ہے اور امن کی جگہ ہے (صحیح مسلم) آپؐ نے فرمایا ! کہ مدینہ خیر وبرکت کی جگہ ہے (صحیح بخاری1875) آپؐ نے فرمایا ! مدینہ کے راستوں پر فرشتے مقرر ہیں اس میں نہ طاعون اور نہ ہی دجال داخل ہوسکتا ہے (صحیح بخاری7133) شہر مدینہ منورہ کی فضیلت پر اور بھی بہت سی احادیث موجود ہیں۔ سارے انبیاء کرام ؑ ہی عزت وتکریم والے ہیں مگر آنحضرتؐ کا مرتبہ ومقام سب سے الگ اور اعلیٰ ہے احترام کا عالم تو یہ ہے کہ ہے کہ خود رب کائنات اپنے کلام پاک میں ارشاد فرماتا ہے اے ایمان والو ! تم اپنی آوازوں کو نبی مکرم ؐ کی آواز سے بلند مت کیا کرو اور ان کے ساتھ اس طرح بلند آواز سے بات (بھی) نہ کیا کرو جیسے تم ایک دوسرے سے بلند آواز کے ساتھ کرتے ہو (ایسا نہ ہو ) کہ تمہارے اعمال ہی (ایمان سمیت)غارت ہوجائیں اور تمہیں (ایمان اور اعمال کے برباد ہوجانے کا)شعور بھی نہ ہو (سورۃالحجرات)جس عظیم،اعلیٰ،محترم،مکرم ہستی کے سامنے حضرت ابوبکر صدیقؓ،عمر فاروق ؓ،عثمان غنیؓ علی حیدرکرارؓ کو بھی پست آواز رکھنے کا حکم دیا گیا ہو ۔ جس عظیم ہستی پر ہمہ وقت اللہ اور اسکے فرشتے درودوسلام بھیجتے ہوں اور ایمان والو کوخوب درودوسلام بھیجنے کی تلقین کی گئی بلکہ حکم دیا گیا ہو اس عظیم قائد،ہادی ورہنماخاتم الانبیاء کے حرمت والے شہر مسجد نبویؐ کے قریب چندجاہلوں کا اونچی آواز میں بولنا، ہائے ہم لٹ گئے ہم برباد ہوگئے ہم غارت ہوگئے بطور ایک ادنیٰ سا طالب علم،کالم نگار ہونے کے ناطے غیر جانب دار ہوں میراکسی بھی سیاسی، مذہبی جماعت سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں میرا تعلق ہے تو محمدالرسولؐ سے ہے جن کی شفاعت سے میں اور تمام مسلمانوں کی بخشش ہونی ہے۔
فرض کرو مان لیا کہ جو نعرے لگائے سبھی درست تھے مگر عقل کے اندھو مقلدوں شخصیت پرستی میں تم بت پرستی سے بھی آگے نکل چکے ہو ۔ جس مقام پر ہوائیں بھی ادب سے چلتی ہوں نبیؐ کے غلام جہاں سانس بھی آہستہ لیتے ہوں اس عزت وتکریم والے مقام پر اونچی آوازوں میں بولنا توبہ یااللہ اس دل سوزسانحہ کے بعد جہلا قسم کے دانشور ،خودساختہ لفافی صحافی یہ کہہ رہے ہیں کہ مسجد نبویؐ کا احاطہ نہیں تھا بلکہ بازار تھا ان عقل کے اندھوں سے یہ پوچھنا ہے کہ جن بازاروں میں میرے آقا کریم ؐکبھی چلا کرتے ہونگے جہاں عاشقان رسولؐ ننگے پائوں چلتے ہوں تم نے نبی رحمت ؐ کے اس شہر مقدس کا تقدس پامال کیا ہے ۔
شیخ رشید پریس کانفرنس میں برملا کہتا ہے کہ دیکھتے ہیں مدینہ میں انکے ساتھ کیا ہوتا ہے ہائے افسوس کہ مسلمانوں کو اقتدار کی ہوس نے اس قدر اندھا کردیا ہے کہ اب شہر نبیؐ کی حرمت بھی پامال کرنے لگے ہیں۔ خلافت عثمانیہ کا دور ترکی اسلامی حکومت کے عروج کا دور تھا یہ وہ وقت تھا جب خلافت عثمانیہ کو نہ صرف دنیا بھر کے مسلمان قبول کرتے تھے بلکہ اس کو اسلام کا مرکز مانتے تھے۔ اس وقت کے حکمران خلیفہ سلطان عبدالحمید ثانی ؒ کا شمار ایک عاشق رسولؐ کے طور پر ہوتا تھا،عشق مصطفیؐ میں سرشار اس عظیم انسان کے بہت سے واقعات ہیں جن میں ایک بڑا مشہور واقعہ ہے کہ آپ نے اپنے دور حکومت میں ترکی سے لیکر مدینہ تک ایک ٹرین سفر کا آغاز کیا جس کے لیے ترکی سے لیکر مدینہ تک پٹری بچھائی گئی تاکہ ترکی کی عوام سفر عشق بغیر کسی دشواری کے کرسکے۔ایک طویل جدوجہد اور محنتوں کے بعد جب ریلوے کی پٹریوں کاکام مکمل ہوا اور مدینہ میں ترکی ریلوے اسٹیشن کے نام اسٹیشن بن گیا تواس کے افتتاح کے لیے سلطان عبدالحمید ثانی ؒ کو دعوت دی گئی۔ سلطان عبدالحمید ثانی ؒ پہنچے اور پہلی ٹرین کی روانگی کے لیے فیتا کاٹا کوئلہ سے چلنے والا انجن نے اسٹارٹ ہونے کے لیے شور مچایا تو جیساکہ کوئلے والے انجن شور مچاتے ہیں۔ سلطان عبدالحمید ثانیؒ جو کہ ایک سچے عاشق رسولؐ تھے انہوں نے یہ شور سنا تو فوراً نیچے سے کچرا اٹھا اٹھا کر انجن کو مارنے لگے اور اس کو فوراً بندکروایا ان کا کہنا تھا کہ میرے نبیؐ کے شہر میں اس شور مچانے کی تمہیں ہمت کیسے ہوئی۔
یقین کریں مدینہ منورہ میں جو جاہل اونچی آواز میں بولے ہیں انہوں نے نبی رحمتؐ کے شہر امن میں بدامنی پھیلائی ہے یہ ناقابل معافی جرم ہے جس کی سزا انہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ضرور ملے گی۔ ان شاء اللہ وہاں پر ہمارے ہادی رہنما خاتم الانبیاء،محبوب خدا، احمد مصطفیؐ کا روضہ مبارک ہے جہاں ہر وقت اللہ اور اسکے فرشتے آپؐ پر درودوسلام بھیج رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے حکم سے وہ مسلمان جو آپ ؐ پر درود وسلام بھیجتے ہیں ان کاسلام آپؐ تک پہنچایا جاتا ہے ۔ساری سیاست ساری دنیا کی بادشاہت ایک طرف میری نبی ؐ کے شہر کی حرمت سب سے زیادہ اہم ہے سب سے افضل ہے۔ مدینہ منورہ میں ہونے والے اس واقعہ کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے آخر میں صرف اتنا ہی کہنا ہے کہ مسلمانوں شخصیت پرستی سے باہر نکلو ۔اللہ تعالیٰ ہمیں ہدایت دے آمین۔