کچھ کردار ہمیشہ زندہ رہتے ہیں ! مسلمان ایک عظیم الشان تاریخ کی حامل قوم ہیں، تاریخ کے اوراق پلٹیں تو قدم قدم پہ کوئی پر شکوہ شخصیت اپنے جلال و جمال کے ساتھ کھڑی نظر آتی ہے- ان عظیم شخصیات نے تاریخ میں سنہرے ابواب رقم کئے ہیں جو آج بھی مشعل راہ ہیں_سلطان حیدر علی کے بیٹے سلطان فتح علی ٹیپو کی پیدائش 20 نومبر 1750میں دیوانہالی میں ہوئی _ آپکو تقریبا سات زبانیں آتی تھیں اور سائنسی علوم میں مہارت رکھتے تھے، یہ امر خوشگوار حیرت کا سبب ہے کہ دنیا میں راکٹ سازی اور میزائل ٹیکنالوجی کا موجد ٹیپو سلطان ہے جس نے 1792 میں اس ٹیکنالوجی کا استعمال کر کے دشمن کو شکست دی _امریکہ کے خلائی تحقیق کے ادارہ NASA کے میوزیم میں ٹیپو سلطان کے ایجاد کردہ راکٹوں اور میزائلوں کی تصاویر آج بھی جگمگا رہی ہیں _اتنا علم حاصل ہونے کے باوجود ظاہری ٹیپ ٹاپ سے دور تھے اور سادہ زندگی بسر کیا کرتے تھے _بادشاہ ہونے کے باوجود زمین پر کھدر بچھا کے سو جایا کرتے تھے !
سلطان فتح علی ٹیپو کی سلطنت 80 ہزار مربع میل پر پھیلی ہوئی تھی جبکہ فوجیوں کی تعداد 88 ہزار تھی _آپکی ایک اور نایاب خوبی یہ تھی کہ اپنے نام اور ذات کا پرچار کرنے سے گریز کرتے تھے _خود نمائی سے بچنے کے لئے اپنے نام کا سکہ بھی جاری نہ کروایا _سلطان نے سرنگا پٹم میں ایک یونیورسٹی “جامع الامور “کے نام سے قائم کی جہاں دینی و جدید علوم سکھائے جاتے تھے _ایک پرنٹنگ پریس بھی لگوایا جہاں سے ایک ہفت روزہ اخبار اردو زبان میں چھاپا جاتا تھا، یہ اخبار افواج کو پڑھایا جاتا تھا _ٹیپو سلطان کی لائبریری میں تقریبا 45 ہزار کتابیں تھیں ، انکے میر منشی زین العابدین شوستری نے “سلطان التاریخ ” نامی کتاب تصنیف کی تھی جس کا پہلا حصہ “سلطان حیدر علی “اور دوسرا ” ٹیپو سلطان “کے عہد حکمرانی (1789 )کے واقعات پر مشتمل تھا -مصنف زین العابدین نے یہ تاریخی واقعات ٹیپو سلطان سے سن کے قلمبند کئے تھے _
سلطان بہت سمجھدار اوردور اندیش حکمران تھاوہ اس حقیقت کو جان چکا تھا کہ انگریز برصغیر میں صرف تجارت کی غرض سے نہیں آئے بلکہ وہ یہاں کے سیاہ و سفید کے مالک بننا چاہتے ہیں ،اس خطرے کو بھانپتے ہوئے اس نے ہندوستان کی ہر ریاست کو اتحاد کی دعوت دی لیکن وہ تنگ نظر حاکم اس حکمت عملی کو سمجھنے میں ناکام رہے اور مشترکہ دشمن کے خلاف متحد نہ ہوسکے _دوسری طرف دشمن جو بہت عیار اور چوکنا تھا، اس نے ٹیپو سلطان جیسے سچے اور خداترس انسان کے خلاف افواہوں کا بازار گرم کردیا ، سنی سنائی باتیں بغیر تحقیق کے آگے بڑھتی گئیں اور ریاستوں کے حکمران ٹیپو کے خلاف ہوتے گئے – اس طرح رائے سازی کر کے سلطان کے ارد گرد نفرت کا جال بن دیا گیا- ایک طرف سلطان کو اس کے ممکنہ حلیفوں سے دور کردیا گیا اور دوسری جانب سلطان کی صف میں غداروں کو پروان چڑھایا گیا ، مؤرخین لکھتے ہیں کہ انگریز افواج کی کثرت ، سلطان ٹیپو کے جزبہ ، جرات و شجاعت کے سامنے ٹک نہ سکتی تھی اگر اندرونی غداروں (میر صادق ، معین الدین ، غلام راجہ خان ، میر قاسم علی ، میر غلام علی ، دیوان پورنیا )نے گھر کی بنیادیں نہ ڈھائی ہوتیں !
ٹیپو سلطان کے الفاظ تاریخ کے سنہرے اوراق میں ہمیشہ محفوظ رہیں گے ، جب 4 مئ 1799 کی نماز فجر کی ادائیگی کے بعد سلطان کے پرائیویٹ سیکریٹری نے انگریز کے حملے سے بچنے کے لئے دب کے صلح کی تجویز پیش کی تو سلطان ٹیپو نے جواب دیا ہم سالوں سے اس سلطنت خداداد کو جو ہماری رعایا با لخصوص مسلمانوں کی ملکیت ہے بچانے کی فکر کر رہے ہیں لیکن وزرا و افسران سلطنت ہی درپردہ اسکی تباہی کے درپے ہیں ، انسان کو صرف ایک دفعہ موت آتی ہے ، اس سے ڈرنا لا حاصل ہے ، اسکی کوئی اہمیت نہیں کہ وہ کب آئے اور کہاں ائے ، میں اپنی ذات کو مع اپنی اولاد کے ، دین _محمدی ، علی صاحبھا الصلوٰۃ والسلام پر نثار کرنے کا فیصلہ کر چکا ہوں _ زندگی کے ان کٹھن حالات میں چند ہندو نجومیوں نے کچھ پیشگوئیاں کرکے سلطان کی ہمت کمزور کرنے کی کوشش کی مگر سلطان نے ان پیشگوئیوں کو چنداں اہمیت نہ دی البتہ فقرا و مساکین میں خیرات و صدقات بانٹ کے رب کو راضی کرنے میں لگ گیا –
انگریزوں نے جنرل بیرڈ کی قیادت میں سرنگا پٹم کے قلعہ پر کئی اطراف سے دھاوا بول دیا _ٹیپو سلطان کے متعین کردہ حفاظتی دستے (سیکیورٹی )کو ایک سازش کے تحت پہلے ہی ہٹادیا گیا تھا ، چنانچہ دشمن کو اندر داخل ہونے میں کوئی چیز مانع نہ ہوسکی _ٹیپو سلطان نے اپنے وفاداروں کے ساتھ مردانہ وار مقابلہ کیا ، جن میں مردو خواتین سب شامل تھے _عین گھمسان کی جنگ میں جب ایک خادم نے آپ کو دشمن سے صلح کی ترغیب دینا چاہی تو سلطان نے اس نازک موقع پر یو ٹرن لینے سے انکار کردیا ، آپ جلال میں آگئے اور اپنا تاریخی جملہ کہا : شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے ! اور چومکھی لڑائی لڑتے ہوئے جام شہادت نوش فرمایا -جنرل ہیرس نے ٹیپو سلطان کے شہید جسم کو دیکھا تو بے اختیار نعرہ لگایا،آج سے ہندوستان ہمارا ہے !۔
اس معرکہ میں سلطان فتح علی ٹیپو کے کم و بیش بارہ ہزار مردو خواتین نے اپنے سلطان کے وقار اور دھرتی کے ناموس کی خاطر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا _ملت اسلامیہ کا یہ بطل _جلیل سرنگا پٹم کے لال باغ میں آرام فرما ہے ,اور ہر سچے و نڈر انسان کے دل میں زندہ ہے !
جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے
یہ جان تو آنی جانی ہے ، اس جان کی تو کوئی بات نہیں !