رمضان کا مہینہ اپنی تمام تر عظمتوں، رحمت کی فضاؤں کے ساتھ رخصت ہوگیا اور پوری دنیا کے مسلمانوں نے اس مہینے میں روزوں، دعاؤں ، ذکر و اذکار ودیگرعبادت اور قرآن مجید کی تلاوت کی برکت سے اپنے قلوب کو زیادہ منور اور خدا سے زیادہ قریب کر لیا۔ عیدالفطر، ماہ مبارک رمضان کے بعد انعام حاصل کرنے اور رحمت الٰہی کا نظارہ کرنے کا دن ہے۔ عربی زبان میں ہر ایک مکرر آنے والی کیفیت کو خواہ خوشی ہو یا غم عید کہتے ہیں، عرف عام میں یہ خوشی کے دن کے لئے مخصوص کر لیا گیا ہے۔
علماء نے عید کا مفہوم اور اس کی تشریح اس طرح بھی کی ہے کہ : مہینہ بھر کی روحانی و نورانی ریاضتوں اور نفسانی و اخلاقی طہارتوں و پاکیزگیوں کے بعد ایک نئی روحانی زندگی کے عود کر آنے کی وجہ سے بھی اس کو عید کہا جاتا ہے۔ایک مہینہ خدا کے واسطے اور اس کے حکم پر مومن بندہ بھوک و پیاس کی مشقتیں برداشت کرتا ہے نفسانی خواہشات کو دباتا ہے اور پھر جب عید کے دن جو طبعی خوشی ہوتی ہے اس کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا۔ اسی طرح تراویح اور قیام الیل اور رمضان میں صدقات و خیرات کرکے جب مومن بندہ فارغ ہوتا ہے تو وہ خاص لذت اور فرحت محسوس کرتا ہے اور شکرانے کے طور پر دوگانہ ادا کرتا ہے۔
عید سعید کی بے شمار مصلحتیں اور مقاصد ہیں عید پر اللہ تعالیٰ نے خاص طور پر اور تاکید کے ساتھ مسلمانوں پر یہ ذمہ داری عائد کی ہے کہ وہ اپنی خوشیوں میں غریبوں کو ضرور شریک کریں۔ روٹھے ہووں کو منائیں کم درجہ لوگوں کو گلے لگائیں بچوں سے پیار کریں۔ بڑوں سے تعظیم و اکرام سے پیش آئیں اور خاص طور پر افلاس اور غربت کے ماروں کو تلاش کرکے گلے سے لگائیں۔ اس دن دوگانہ ادا کرنے سے پہلے صدقہ فطر ضرور ادا کردیں۔ کیوں کہ حدیث میں آتا ہے کہ روزہ زمین و آسمان کے درمیان معلق رہتا ہے جب تک کہ صدقہ فطر ادا نہ کیا جائے۔ اسلام میں عید کی بنیاد اور اساس روح کی لطافت و پاکیزگی قلب کے تزکیہ جسم و بدن اور روح و دماغ کی طہارت ایثار و ہمدردی اتحاد و اتفاق قومی و ملی اجتماعیت و یکجہتی اور انسانیت و مساوات عجز و انکسار اور صلاح و تقویٰ پہ قائم ہے۔
عید حقیقی خوشی و مسرت اور شادمانی کا نام ہے ۔ ساری مسلم دنیا کے لیے ایک انتہائی خوشی کا موقع ہے کہ نا صرف رمضان کا مبارک مہینہ پایا بلکہ اس کے اختتام پر عید کی مسرتیں بھی حاصل کیں۔اب ہمیں اپنے اندر جھانکنے کی سخت اشد ضرورت ہے کہ ہم نے اس رمضان المبارک مہینے کا کیا سیکھا ہے ؟کیا ہم نے اپنے گناہوں سے توبہ کی ہے ؟کیا ہم نے اپنے رب کا منانے کی کوشش کی ہے ؟کیا ہم نے حسد ، بغض،کینہ چھوڑا ہے ؟ کیا ہم نے ویسا بننے کی کوشش کی ہے جیسا بننے کا حکم ہمیں رب تعالیٰ اور اس کے رسول ؐ نے دیا ہے؟۔