کسی قوم کے اخلاقی بگاڑ کا نتیجہ بالآخر معاشرتی زوال کی صورت میں نکلتا ہے اور افسوس کہ پاکستانی قوم بڑی تیزی سے اس منزل کی طرف گامزن دکھائی دے رہی ہے۔ پچھلے دنوں ماہ مبارک میں پے درپے ایک ہی قسم کے کئی واقعات ہمارے لئے لمحہ فکریہ ہیں جن میں نو عمر لڑکے اورلڑکیاں گھر والوں کو چکما دیکر غلط طریقے سے ایک دوسرے کے ساتھی بنے۔ سوچنے کی بات یہ کہ ہم اپنی اقدار کے دلدادہ اپنے ماضی پر فخر کرنے والی قوم ہیں ! پھر کیا وجہ ہے کہ ہمارا معاشرہ اس تنزّلی کا شکار ہورہا ہے! فی زمانہ اگر ان خرابیوں کی وجوہات تلاش کی جائیں تو سب سے بڑی وجہ لوگوں کا مادہ پرست(materialistic)ہوجانا ہے آسائیشوں کی دوڑ نے ہمیں نہ صرف ایک دوسرے کے مقابل لا کھڑا کیا ہے بلکہ خونی رشتوں کو بھی ایک دوسرے سے لاتعلق بنا دیا ہے۔ حالیہ واقعات اس کی مثال ہیں کہ کس طرح ایک ہی گھر میں رہتے ہوئے ہم ایک دوسرے سے میلوں دور ہیں، پڑوسیوں کی ایک دوسرے سے لاتعلقی، رشتے داروں سے دوری ، یہاں تک کہ ماں باپ کی اکثریت بچوں کے فیوچر بنانے کی دھن میں ان کے حال و مستقبل کو اخلاقی طور پر ان جانے میں تباہ کررہے ہیں۔
ماں وہ ہستی ہے جو اولاد کے چہرے کے اتار چڑھاؤ سے اس کی دلی کیفیت کا اندازہ کرسکتی ہے پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ برابر میں بیٹھے پپ جی کھیلنے والے بچوں کی کیفیات اس کی زیرک نظروں سے اوجھل ہوجائیں وہ جان ہی نہ پائے کہ اولاد کے زہن میں کیا چل رہا ہے یا پھر بات یہ کہ والدین میں اکثریت کی ترجیحات بدل گئی ہیں وجوہات جو بھی ہوں مگر مسئلہ بڑا گھمبیر ہے سچ پوچھیں تو والدین نے اپنی جگہ چھوڑدی ہے۔ اب خالی جگہ کوئی تو پُرکرے گا سو یہ ڈیوٹی میڈیا بڑی تن دہی سے انجام دے رہا ہے اور نتیجہ سب کے سامنے ہے اور سب جانتے ہیں کہ میڈیا پر کسی خبر کی مسلسل گردان کرنا اصل میں عوام کو اس فعل کا عادی بنانا ہے تاکہ لوگ برائی کو برائی سمجھنا چھوڑ دیں اور اسے کرگزرنے میں کوئی ملامت نہ ہو حالیہ اسکینڈل اس کا بیّن ثبوت ہیں۔
مغرب لاکھ آذاد سہی مگر ہماری معاشرتی اقدار کا عشرِ عشیر بھی نہیں ہے وہاں اٹھارہ سالا بچے خود مختار ہوتے ہی ماں باپ کی ایک نہیں سنتے مگر ہمارے ہاں اب بھی اکثر خاندانوں میں بیٹا پچاس کا ہوکر خاموش کھڑا باپ کی ڈانٹ سننے کو اپنی سعادت سمجھتا ہے آفس سے گھر دیر سے پہنچنے پر اب بھی ہمارے مرد حضرات اطلاع دیتے ہیں کہ پریشان نہ ہونا پہنچنے میں دیر ہوسکتی ہے۔ یہ علامات پتہ دیتی ہیں کہ روح ابھی پوری طرح مری نہیں زندہ ہے۔ گو کہ یہ پیڑھی اب ختم ہونے کو ہے اور ان اقدار کو ڈھانے کے لئے پے در پے اندرونی و بیرونی حملے شدید ہیں مگر معاشرہ ان چند خاندانی نفوس کی وجہ سےابھی تک مضبوط ستونوں پر قائم ہے۔ ماضی میں ان روایات کی سختی سے پاسداری برتی جاتی تھی جب گھروں میں چچا تایا، خالہ زاد و دیگر رحمی رشتے چاہے بچپن میں ساتھ پلے بڑھے ہوں مگر بالغ ہوتے ہی ماؤں دادی نانیوں کے زیر تربیت رہ کر اٹھنے بیٹھنے اور بول چال کے طریقے سیکھ کر اعلیٰ اخلاق کے مظہر بنے اور غلاظتوں سے دور رہے۔ اس لئے آج ہم فخر سے کہتے ہیں کہ ہمارا مضبوط خاندانی سسٹم ہر غلط روی کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ ہے گرچہ اس میں میڈیا ڈراموں کے زریعےعجیب کلچر پھیلا کر دراڑیں ڈال چکا ہے مگر اب بھی یہ ہمارے لئے محفوظ پناہ گاہ کی صورت موجود ہے۔
اس بڑھتی ہوئی بےراہ روی کے سبب اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ان ستونوں کو مضبوط کیا جائے یہ تب ہی ممکن ہوگا جب ہر فرد اپنی جگہ سنبھالے باپ گھر کا کفیل ہے تو ماں سے گھر کے اندر کی پوچھ گچھ ہونی ہے اولاد کی حد میں رہتے ہوئے ضرورتوں کا خیال اور ان کے اخلاق کو بہتر بنانا ماں باپ کا فرضِ عین ہے مگر کسی بھی معاملے میں بے اعتدالی بگاڑ کا سبب بن رہی معاشرے کی موجودہ صورت اس کی واضع دلیل ہے۔
فرمانِ نبی ﷺ کا مفہوم ہے کہ ایک باپ اپنی اولاد کو جو کچھ دیتا ہے اس میں سب سے بہتر اچھی تعلیم و تربیت ہے۔
یہ تربیت کا فقدان ہے جس کی وجہ سے آج معاشرہ اخلاقی پستی کی طرف رواں ہے۔ گھر سے معاشرہ بنتا ہے اور ماں باپ دونوں اس کے اہم یونٹ ہیں خاص کر ماں جو اولاد کی ہر جنبش کو سمجھتی ہے بس رب کے عطا کردہ منصب کے تعین کی دیر ہے۔