ننھی زارا کی جیسے ہی صبح سویرے آنکھ کھلی وہ اپنے بستر سے چھلانگ لگا کر کھڑی ہوئی اور تیزی سے اپنے بھائی ارباز کے بیڈ کے سرہانے کھڑی ہو گئی اور بھائی کے کان میں سرگوشی کرنے لگی گی!
بھائی جلدی اٹھو آج ہم نے عید کی خریداری کرنے جانا ہے بھائی اٹھو نا! زارا نے اپنے سے تین سال بڑے بھائی کو جھنجھوڑا. ارباز آنکھیں ملتا ہوا اٹھا اور کہا کیا ہو گیا زارا؟ بھائی تمہیں یاد نہیں ماما نے کہا تھا کہ آج ہم عید کی تیاری کے لئے لے جائیں گی زارا نے کہا،ہاں یاد ہے ‘ارباز بولا. تو چلو ماما کو اٹھانے چلتے ہیں زارا نے آیڈیا دیا۔
دونوں بہن بھائی ماما کے کمرے میں داخل ہوگئے وہاں انھوں نے ماما کے کان میں آہستہ سے کہا “ماما جلدی اٹھیں آج ہم نے عید کی خریداری کرنے جانا ہے”
صبا کی آنکھ کھلی تو اس نے دونوں بچوں کو دیکھا اور کہا “تم دونوں اتنی جلدی اٹھ گئے؟”چھٹی والے دن تو آرام کرنے دیا کرو! صبا نے بے زاری سے کہا اور ایک نظر اپنی چھوٹی ڈیڑھ سالہ بیٹی انایا پر ڈالی جو کہ سورہی تھی.
ماما چلیں گی نا بتائیں؟ زارا نے استفسار کیا۔ ہاں بیٹا شام میں جائیں گے ابھی تو مجھے ناشتہ بنانا ہے ہاے میری ہڈیاں! بہت درد ہے پر کیا کروں کام تو کرنا ہے مر بھی رہے ہوں تو اس گھر میں سکون سے مر نہیں سکتے! صبا نے مظلومیت سے کہا اور کھڑی ہو گئی جب کچن میں گئی تو پیچھے سے ساس صاحبہ آگئیں اور کہنے لگیں بیٹا مجھے جلدی سے ایک کپ چائے اور پاپے دے دو بہت بھوک لگی ہے۔
جی امی ابھی دیتی ہوں” صبا نے جواب دیا! اسکے بعد صبا کام میں جت گئی پراٹھے ، انڈے، قیمہ، چائے سب کچھ بنا لیا کیونکہ آج اس کی ڈیوٹی صبح کے ناشتے کی تھی
اس گھر میں تین بہوئیں تھیں صبا سب سے چھوٹی بہو تھی سب کی باری لگتی کہ صبح دوپہر شام کون کیا بناے گا سب کے بچے بھی تھے سب سے بڑی جٹھانی کے تین بچے تھے جو کہ اسکول کالج جانے والے، اس سے چھوٹی جٹھانی کے دوبچے تھے جو کہ اسکول جاتے تھے صبا کے تین بچے ارباز جو کہ پانچ سال کا تھا اس سے چھوٹی زارا اور پھر انایا۔
صبا کو اس بات پر بہت غصہ آتا کہ ہماری کوئی پرائیویٹ لائف نہیں ہے ہر وقت گدھوں کی طرح کام میں لگے رہو کچن سے فرصت ملے تو بچوں کے کام! ان کو پڑھانا، کھلانا، نہلانااور پھر کپڑے دھونا! ماسییاں بھی تھیں لیکن پھر بھی اس کو یہ سب کرنا بہت مشکل لگتا، کیونکہ اس کے میکے میں صرف پانچ افراد تھے امی ابو اور تین بہن بھائی بس!
شام ہوئی تو پتا چلا کہ بڑی جٹھانی صاحبہ اپنے میکے چلی گئیں کیونکہ انکے بھائی کی شادی ہونے والی ہےاس لئے رات کا کھانا دونوں دیورانی جٹھانی نے ملکر بنانا تھا۔ صبا منہ پھلا کر کمرے میں داخل ہوئی اور اپنے شوہر پر برس پڑی اتنی مشکل سےآج کا دن چھٹی کا ملا تھا کہ بچوں کو عید کی خریداری پر لے جائیں گے رمضان آرہے ہیں اس سے پہلے شاپنگ کر لیں مگر نہیں اس گھر کے تو کام ہی ختم نہیں ہوتے۔ اربااازز! صبا نے بیٹے کو آواز دی اور کہا انایا کو سنبھالو اس کو کھلونے دے دو بہل جائے گی۔ ننھی زارا اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں سے اپنی ماں کا سر دبانے لگی اور کہا ” ماما آپ تھک گئیں” صبا کو بیٹی پر پیار آگیا دل بھینچ کر بولی، بیٹا آج ہم شاپنگ پر نہیں جا سکتے زارا روہانسی ہوگئی۔
صبا کی امی کا فون آیا خیریت معلوم کرنے، صبا تو ویسے ہی بھری بیٹھی تھی ساری بھڑاس اس نے امی کے سامنے نکال دی “سارا دن کولھو کے بیل کی طرح لگے رہو ایک منٹ آرام کا نہیں ملتا ہے گھر میں! بیٹھنے کا ہنسنے کا کوئی رواج نہیں اس گھر میں بس کام ہی کرتے رہو، امی کیوں پھنسا دیا مجھے اس جنگل میں ” صبا تقریباًروتے ہوئے بولی۔
نہیں بیٹا ایسے نہیں کہتے امی نے سمجھایا دیکھو مجھے اگر بخار بھی ہوتا تھا تو سارے کام خود کرنے پڑتے تھے کوئی پانی پلانے والا نہیں تھا۔ تمہارے گھر میں کم از کم اتنے سارے لوگ ہیں خیال رکھنے کے لیے۔ امی آپ کو تو ساری دنیا ٹھیک لگتی ہے میری مظلومیت کبھی نظر نہیں آتی صبا نے یہ کہہ کر فون بند کیا اور رونے لگی۔
جیسے تیسے کر کے شاپنگ ہوگئی۔ رمضان آ گئے اور پھر تو مت پوچھو سارا دن کب گزر گیا کسی کو ہوش نہ ہوتا عبادتیں سحری افطاری میں وقت کا پتا نہ چلتا۔ اسی طرح کرتے کرتے چاند رات آ گئی، سب کو مہندی لگانے جانا تھا صبا بھی کام نمٹا رہی تھی جلدی میں سیڑھی سے پاؤں پھسلا اور وہ دھڑام سے گر گئی زور سے چلائی ہائے میری ٹانگ! اور پھر بے ہوش ہوگئی۔
جب آنکھ کھلی تو ہسپتال میں بستر پر پڑی تھی ٹانگ کی ہڈی ایسی ٹوٹی کے ڈاکٹر نے آپریشن بتایا تھا۔ عید کی چھٹیوں کی وجہ سے آپریشن عید کے تین دن بعد تھا اس لیے اس کی ٹانگ پر صرف ہلکا سا پلستر تھا اور ہلنے جلنے سے منع کیا گیا تھا۔ شوہر نے قریب آکر اس کو تسلی دی اور کہا پریشان مت ہو کچھ نہیں ہوگا تم ٹھیک ہو جاؤ گی، ان شاء اللہ۔ صبا کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ صبا نے بچوں کا پوچھا تو اس کے شوہر نے بتایا گھر پر ہیں بھابھی سنبھال لیں گی تم فکر نہ کرو وہ تسلی دے کر رات گئے گھر چلے گئے اور صبا کو نیند کا انجکشن دے دیا گیا تھا صبح جب اس کی آنکھ کھلی تو ٹانگ میں شدید درد تھا اور اس کے پاس کوئی نہیں تھا اس کے آنسو نکلنے لگے کہ عید کا دن ہے اور میں بالکل تنہا ہسپتال کے بیڈ پرہوں ۔ گھر میں سب عید کی تیاریوں میں مصروف ہوں گے یہ سوچ کر اس کا دل اور بیٹھا جا رہا تھا۔ اس کو سب گھر والے یاد آنے لگے، امی کی باتیں، ساس، جٹھانیاں، بچے لیکن وہ بالکل تنہا تھی کچھ نہیں کر سکتی تھی اسے احساس ہونے لگا تھا کہ سب لوگ ہوتے ہیں تو تنہائی کا احساس بھی نہیں ہوتا۔ صبا رو رہی تھی اور اللہ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگ رہی تھی اسے احساس ہو گیا تھا کہ سب کا ساتھ کتنی بڑی نعمت ہے۔
صبح کے دس بج چکے تھے ہسپتال بھی تقریباً خالی تھا، سب عید کی چھٹی کے لئے گئے تھے کچھ عملا باقی تھا۔ اتنے میں اسے کچھ شور کی آواز آئی اور اس کے کمرے کا دروازہ کھلا، بچے، شوہر، ساس، جٹھانیاں اور ان کے بچے اتنے ڈھیر سارے لوگ کمرے میں داخل ہوئے اور اسے عید کی مبارکباد دینے لگے۔ ننھنی زارا اس کے لیے پھول لائی تھی، کوئی کیک اور کوئی شیر خرما لایا۔
اس کی ساس نے اس کا ماتھا چومتے ہوئے کہا ہم سب آج تمہارے ساتھ عید منائیں گے اتنے میں اس کے امی ابو بھی آگئے۔ امی نے صبا کو لپٹا کر پیار کیا اور کہا دیکھو بیٹا یہ سب لوگ ایک تحفہ ہیں اللہ کی طرف سے۔ صبا مسکرا دی اور اوپر دیکھ کر کہا اللہ میاں آپ کا شکریہ۔