سری لنکا سے اچھی خبریں موصول نہیں ہورہیں۔ ملک دیوالیہ ہونے کے بعد بڑے پیمانے پر مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔ ان مظاہرین سے اب ایوان صدر بھی محفوظ نہیں رہا۔ فوج کے ہاتھ سے معاملات نکلتے جا رہے ہیں۔ اس دوران پوری دنیا بشمول جمہوریت کے چمپئن امریکا جیسا ملک بھی محض تماشائی کا کردار ادا کررہا ہے۔
کچھ ایسی ہی صورتحال ہماری بھی ہے۔ میں نے آج سے دو ماہ پہلے اس بات کا ذکر اپنی ٹوئٹ میں کیا تھا کہ ہم دیوالیہ ہونے کے بہت قریب پہنچ چکے ہیں۔ اگر ہم دیوالیہ ہوگئے تو پھر کیا ہوگا۔ یہ ایک اہم سوال ہے تاہم افسوس اس بات کا ہے کہ ہم نے شتر مرغ کی طرح اپنی گردن زمین میں دبائی ہوئی ہے اور یہ سوچ رہے ہیں کہ خطرہ ٹل جائے گا۔
قائد ایوان کی تبدیلی کے بعد معاملات بہتری کی جانب گامزن ہونے کے بجائے مزید خطرناک ترین صورتحال سے دوچار ہونے جارہے ہیں۔ جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ہمارا مجموعی قرضہ ہمارے بجٹ سے تجاوز کرنے لگا ہے۔ایک صحافی نے اپنے کالم میں جس طرح ذکر کیا تھا کہ بیرونی قوت کا پہلا حملہ ہمارے ایٹمی ہتھیار ہوں گے تو بلاشبہ یہ بات سو فیصد درست ہے کہ ہمارے ایٹمی ہتھیار جن پر ہم ماہانہ اربوں روپے قوم کا پیٹ کاٹ کر بچانے اور مزید سنوارنے میں لگا رہے ہیں آئندہ چند ماہ بعد یہ ہتھیار ہم نئی نویلی دلہن کی طرح غیروں کے ہاتھ رخصت کرنے والے ہیں۔
ہمارے پاس بجلی کی پیداوار پہلے ہی کم ہے دیوالیہ ہونے کی صورت میں رہی سہی کسر بھی نکل جائے گی۔ اب اگر ملک کے معاشی ہب میں دس گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ ہے تو دیوالیہ ہونے کے بعد یہ دورانیہ بیس سے بائیس گھنٹے تک بھی جاسکتا ہے۔ ہماری انڈسٹریز کا دارومدار بجلی پر ہے، کراچی کی آدھی سے زیادہآبادی اس وقت انڈسٹریز کے روزگار سے جڑی ہے۔ کل جب انڈسٹریز بند ہونا شروع ہوجا ئیںگی تو اس کا نتیجہ بہت بھیانک نکلنے والا ہے۔
کسان پانی کی قلت کے باعث فصلوں کی دیکھ بھال کرنے سے جہاں قاصر ہوں گے ،وہیں ملک میں اناج کی قلت بھی پیدا ہوگی جس سے قیمتیں آسمان کو چھونے لگیں گی۔ مہنگائی کا جن ستر سال میں کسی حکمران سے قابو نہیں ہوا تو وہ ان حالات میں تو مزید سرکش ہوجائے گا جس کے بعد اندازہ لگانا بھی مشکل ہو جائے گا۔
ہم قرضوں کی لپیٹ میں کیوں کر آئے؟ اس سوال کا جواب اکثر ہم سیاستدانوں کے منہ سے سنتے آتے ہیں کہ ملک چلانے کے کے لیے قرضہ ضروری ہے۔ لیکن آج تک کسی سیاستدان نے یہ نہیں بتایا کہ ان قرضوں کے عوض کتنی عیاشی کی جاتی ہے۔ خواجہ آصف کی اسمبلی میں تقریر کی ویڈیو بہت زیادہ وائرل ہورہی ہے جس میں وہ ملک کے اہم ادارے پر تنقید کرتے نظر آرہے ہیں۔ بعقول خواجہ آصف کے کہ ہمارے پاس اب انہیں دینے کے لیے کچھ نہیں۔ ٹھیک ہے ہم ان کی بات کسی حد تک درست تسلیم کر لیتے ہیں۔ مگر کیا خواجہ آصف اس بات کا جواب دیں گے کہ ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھنے والا شخص اسمبلی میں پانچ سال گزارنے کے بعد کس طرح کروڑ پتی اور ارب پتی بن جاتا ہے؟ کیا سیاستدانوں کا اس میں کوئی قصور نہیں؟۔ ملک کو تباہی کی شاہراہ پر گامزن کرنے والا محض ایک ادارہ تو نہیں۔ اس میں ملک کے فرشتہ صفت سیاستدانوں کا بھی برابر کا ہاتھ ہے۔ اگر کوئی ادارہ ملکی خزانے سے ایک روپیہ لیتا ہے تو آپ لوگ اس کا بل دوروپے بنا کر عوام کے سامنے پیش کرتے رہے ہیں۔ اگر اس ملک میں کوئی ادارہ مقدس گائے نہیں تو اسی ملک کی پارلیمنٹ بھی مقدس گائے نہیں۔ یہاں بھی فرشتے نہیں بیٹھے۔ کل اگر ملک دیوالیہ ہوجاتا ہے تو سب سے پہلے اس ملک سے بھاگنے والے یہ ہی سیاستدان ہوں گے۔
چند ماہ بعد واقعی جو صورتحال بتائی جا رہی ہے اگر ایسا ہوا تو جن کی بدولت یہ سب کچھ ممکن ہوا وہ بھی اس آگ کی لپیٹ میں ضرور آئیں گے۔ پاکستان کا امن و استحکام خطے کے لیے اتنا ہی اہم ہے جتنا امریکا اور بھارت اپنے ملک میں چاہتے ہیں۔ امریکا نے اکیس کھرب ڈالر افغان جنگ میں جھونک دیے۔ لیکن پاکستان کسی دشمن کے لیے آسان لقمہ ثابت ہونے والا نہیں۔ہم برباد ہوئے تو یقینا یہ کسی کے لیے بہتر نہیں ہوگا۔ یہ پاکستانی قوم ہے اتنی آسانی سے سب کچھ سونپنے والے نہیں۔ اس کے لیے دنیا کو بڑے پاپڑ بیلنے ہوں گے اور لاکھوں لوگوں کی جانوں کا نذرانہ بھی پیش کرنا ہوگا۔
ہمارے سیاستدان آ ج وزارتوںکے نشے میں چور ہیں کل جب یہ آگ ان کو بھی اپنی لپیٹ میں لے گی تو انہیں اندازہ ہوجائے گا کہ جس قوم کے پیسے پر انہوں نے عیاشی کی اب اس کا بھرپور حساب عوام لے رہی ہے۔ کل جو قافلے مہنگائی کے خلاف اسلام آباد کی جانب رخ کیے ہوئے تھے آج ان قافلوں کو خوش آمدید کہنے والے برسر اقتدار آتے ہی کہہ رہے کہ پیٹرول پر سسبڈی ختم کرکے اسے مزید مہنگا کرنا ہوگا۔ کیا ان خوشامدیوں کو معلوم نہیں کہ پیٹرول کے نرخ بڑھنے سے ملک میں مہنگائی کا ایک نیا طوفان آئے گا؟ پھر ان کے پاس قوم کو دینے کے لیے کیا تاویل رہ جائے گی؟
ملک کو بچانے کے لیے اس وقت اشد ضروری ہے کہ غیر ضروری اخراجات پر کنٹرول کیا جائے۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہیں بڑھانے کے بجائے پانچ سال کے لیے انہیں بیس فیصد کم تنخوا ادا کی جائے۔ جنگ ہم نے کسی سے بھی نہیں کرنی۔ اس لیے دفاعی بجٹ میں کٹوتی کرکے وہ پیسہ بھی بچایا جائے۔ اسی طرح ہماری معزز عدالتوں کے ججز صاحبان کی بھی تنخواہوں اور مراعات پر چھری پھیرنی ہوگی۔ وفاقی و صوبائی وزرا اور ان کے مشیروں کے پھیلے ہوئے ہاتھوں کو کاٹنا ہوگا تاکہ یہاں سے بھی ایک خطیر رقم بچائی جاسکے۔ جن سرکاری افسران کی تنخواہیں ایک لاکھ سے زائد ہو ان پر تیس فیصد ٹیکس عائد کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ ملک کی معیشت اور خزانے پر بوجھ بننے والے اداروں کو فی الفور پرائیویٹ کرنا ہوگا تاکہ فضول میں دی جانے والی تنخواہیں اور مراعات کے پیسے بچ سکیں۔ باہر سے ایسی اشیا کی درآمد پر فوری پابندی عائد کرنی ہو گی جس کا فائدہ ملک کے محض دو فیصد لوگوں کو ہورہا ہے۔کتے اور بلی کے کھانے کے پیکٹ بھی باہر سے منگوائے جارہے ہیں۔ ان اشیاء کی پیمنٹ ہم ڈالر میں کرتے ہیں جس سے اس کی اڑان میں دن بدن اضافہ ہی ہورہا ہے۔ ہمیں ہر طرح کی عیاشیاں ختم کرنی ہوگی اسی صورت میں ہم ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچا سکتے ہیں۔ ورنہ ہمارا حال جہاں دنیا دیکھے گی وہیں ہماری نسلیں بھی ہمیں تاقیامت بددعائیں دیتی نظر آئیں گی۔ آخر میں بس اتنا ہی کہوں گا کہ ملک کو ضرور کھائیں مگر اب ہاتھ ہولا رکھنے کی ضرورت ہے۔ زیادہ کے چکر میں رہے تو پھر نہ ملک ہوگا نہ عیاشیاں۔