امی جان ! آج افطاری میں بہت سارا شربت بنانا ہے۔ صہیب کو آج بہت پیاس محسوس ہو رہی تھی۔ ملک شیک بھی بنا لیں امی جان۔ سعد کا حلق بھی خشک ہو رہا تھا۔ راحیلہ! کھانے کے ساتھ لسی بھی بنا لیجیے گا۔ ابا جان نے بھی فرمائش کر ڈالی۔
روزہ افطار ہوا۔ ٹھنڈا میٹھا شربت اور سادہ پانی پی کر جسم و جاں میں تازگی کی لہر دوڑ گئی ۔ سادہ پانی پی کر کتنا اچھا لگتا ہے۔ صہیب نے مزے لے کر پانی پیتے ہوئے سوچا۔
صہیب میری کتابوں کی الماری میں کتابیں بےترتیب ہو رہی ہیں انہیں ذرا ترتیب سے کر دیں۔ صہیب الماری ٹھیک کر چکا تو امی جان کی ڈائری پڑھنے لگا۔
آج بہت گرمی تھی۔ ہم سب خصوصاً بچے پیاس کی شدت سے بے حال تھے۔ ایسے میں میرے دل میں بار بار تھر پارکر کی ماؤں اور بچوں کا خیال آتا رہا۔ میں نے اس دن اخبار میں تھرپارکر سے متعلق ایک آرٹیکل پڑھا، لکھا تھا۔
تھر کا سب سے بڑا اور بنیادی مسئلہ پانی کا ہے. تھرپارکر کی کل آبادی تقریبا 16 لاکھ ہے اور 60 فیصد کے قریب آبادی پینے کے پانی جیسی بنیادی سہولیت سے محروم ہے۔
تھر کی خواتین پانی کے حصول کے لیئے صبح و شام پریشان رہتی ہیں. یہ خواتین روزانہ تین سے چار گھنٹے پانی کے حصول کے لیے پیدل سفر کرتی ہیں۔ دور دراز کے علاقوں تک اپنے سر پر مٹکوں اور دوسرے برتنوں میں پانی اٹھانے کی مشقت نے انہیں کمزور اور مختلف بیماریوں کا شکار کر رکھا ہے۔ بچوں کی ایک بڑی تعداد صاف پانی کی عدم دستیابی اور غذائی قلت کے باعث بیماریوں سے لڑتے لڑتے موت کے منہ میں چلی جاتی ہے۔
افف یہ سب کتنا مشکل ہے روزے میں چند گھنٹے کی پیاس بے حال کر دیتی ہےتو جو ساری زندگی پیاس کے تجربے سے گزرتے ہیں ان کےلیے کتنا مشکل ہوتا ہو گا۔ صہیب نے پریشانی سے سوچا۔
امی جان نے آگے لکھا تھا۔
رمضان کا مہینہ انسانوں کے ساتھ باہمی ہمدردی اور غم خواری کا مہینہ ہے۔ خاص طور پر معاش اور رزق کے معاملہ میں ایک دوسرے کی تنگی اور محرومی، پریشانی اور دکھ میں شرکت اور مدد کا مہینہ ہے اور پھر فرمان رسولﷺ بھی تو ہے کہ بہترین عمل مومن کو خوش کرنا، اس کی ضرورت پوری کرنا اور اس سے کوئی تکلیف اور سختی دور کرنا ہے۔
رمضان سخاوت کا مہینہ ہے۔ اس ماہ مبارک میں نبی کریم ﷺ کی سخاوت کی کوئی انتہا نہ رہتی۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ بیان کرتے ہیں: نبی ﷺ لوگوں کے ساتھ بھلائی کرنے میں بہت سخی تھے اور رمضان میں جب جبرائیل آپﷺ سے ملتے تو آپﷺ اور بھی زیادہ سخی ہو جاتے۔ رمضان میں ہر رات جبرائیل آپﷺ سے ملا کرتے اور نبی کریم ﷺ رمضان گزرنے تک انہیں قرآن سناتے، جب جبرائیل آپﷺ سے ملتے تو آپﷺ فیاضی میں تیز ہواؤں کی مانند ہو جاتے۔ گویا جس طرح تیز ہوا ہر جگہ پہنچ جاتی ہے اس طرح ہمیں بھی ہر نیکی اور بھلائی میں اپنا حصہ ڈالنا چاہیے۔
ہم نے اس ماہ مبارک میں اللہ تعالی کی عطا کردہ توفیق اور فضل و کرم سے دوستوں اور رشتہ داروں کے ساتھ ساتھ غریبوں، ہسپتالوں میں داخل بیمار اور ان کے تیمارداروں اور جیلوں میں بند قیدیوں تک افطار پہنچانے کی مقدور بھر کوشش کی ہے۔ زکوۃ کی ادائیگی کے بعد اس مقصد کے لیے میں نے سارا سال بچت کر کے نفلی صدقات کی مد میں پیسے اس ایمان سے جمع کیے ہوئے تھے کہ صدقہ سے مال کم نہیں ہوتا بلکہ اللہ تعالی اس کا اجر کئی گنا بڑھا دیتے ہیں اور اب آج کے روزے کی پیاس کی شدت محسوس ہونے پر تھر پارکر کے صاف پانی کو ترستے اپنے بہن بھائیوں تک ٹھنڈا میٹھا پانی پہنچانے کے لیے میرا دل تڑپ رہا ہے۔ مگر میں نہیں جانتی کہ میں ان کی مدد تک کیسے پہنچ سکتی ہوں؟
صہیب ڈائری بند کر کے کافی دیر کچھ سوچتا رہا تھا۔ امی جان میری پیاری امی جان میں لایا ہوں آپ کے لیے ایک بڑی خبر۔ صہیب چہکتا ہوا امی جان کے پاس آیا۔ وہ کیا؟ امی نے پوچھا۔
تھرپارکر میں کنویں کھود کر پانی کا مسئلہ حل کیا جا سکتا ہے۔ ایک کنویں کی کھدائی پر قریباً چار لاکھ کی رقم لگتی ہے۔ وہ کچھ دیر رکا پھر جیب سے ایک کاغذ نکال کر دکھانے لگا۔ یہ ایک قابل اعتماد تنظیم ہے جو اس مقصد کے لیے عطیات اکٹھے کر رہی ہے۔ اب آپ تھر کے لوگوں تک پانی پہنچانے میں اپنا حصہ ڈال سکتی ہیں۔ مگر آپ کو یہ کیسے پتا چلا؟ امی جان حیران ہوئیں ۔ میں نے ابو جان کی مدد سے نیٹ پر سے سرچ کیا ہے۔ صہیب نے خوشی سے بتایا تو امی جان صہیب کی دنیا و آخرت کی کامیابی اور تھر کے بچوں تک پانی اور علم کی نعمت پہنچنے کی دعائیں کرنے لگیں۔