آج سیاست کو چھوڑیں کچھ اور باتیں کرتے ہیں۔ معاشرے کی بات کرتے ہیں اور بدلتے ہوئے اقدار کی بات کرتے ہیں۔ کسی نمرہ کاظمی کی بات کرتے ہیں اور کسی دعا زہرا کی بات کرتے ہیں۔ ہم غریب پاکستان کی بات کرتے ہیں۔ اس پاکستان کی بات جہاں رہنے والوں کی اکثریت کو پینے کا صاف پانی بھی میسر نہیں۔ وہی پاکستان جہاں کسی سرکاری اسپتال میں علاج کرانا اپنے موت کو دعوت دینے مترادف ہے۔
ایک ایسا پاکستان جہاں نہ اچھی صحت کی سہولتیں اور نہ ہی ایسی تعلیم جس سے جہالت کا گھپ اندھیرا تھوڑا کم ہوسکے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم کسی شیطانی جال میں پھنس گئے ہیں۔ کھانے کو روٹی نہیں لیکن اسمارٹ فون ہر کسی کے ہاتھ میں ہے۔ بات ٹیلی وژن اور کیبل سے ہوتی ہوئی اس فون پہ آگئی جہاں ایک دجالی دنیا آپ کی منتظر ہے۔ آئیں اس دجالی نظام کی بات کرتے ہیں جس نے آپ کو علم سے تو دور کردیا لیکن آپ کو ایک ایسی انہونی دنیا میں پہنچادیا جہاں ایک گھر میں بیٹھے افراد بھی ایک دوسرے سے واٹس ایپ کے ذریعے بات کررہے ہیں۔ آئیں اس شکنجے کی بات کرتے ہیں جس میں ہماری پوری ایک نسل پھنس گئی ہے اور ہمیں اس بات کا ادراک ہی نہیں ہے کہ ہم اپنی قبر خود اپنے ہاتھوں سے کھود لی ہے۔
ترقی اور جدید ٹیکنالوجی سے کس کافر کو انکار ہے لیکن یہ کیسا شیطانی چرخہ ہے کہ جو ہمارے بچوں کی معصومیت کو نگل رہا ہے۔ آئیں اس وقت کی بات کرتے ہیں جب بچیوں کو سلیقہ سے دوپٹہ اوڑھنا سکھایا جاتا تھا اور بچوں کو نظروں کی حفاظت کی تعلیم دی جاتی تھی۔ جہاں خالہ زاد، پھوپھی ذاد اور چچا ذاد بھائی ہوتے تھے آج کی طرح کزن نہیں ہوتے تھے۔ یہ بھائی کا لفظ لگنے سے ایک تقدس کا رشتہ برقرار رہتا تھا۔ آئیں اس وقت کی بات کرتے ہیں جب چھپن چھپائی، برف پانی اور کھو کھو جیسے کھیل ہوتے تھے جن سے ان بچوں کا بچپنا محفوظ رہتا تھا۔
آئیں یہ بات کریں کہ ہمیں تعلیم تو یاد ہے لیکن ہم تربیت بھول گئے ہیں۔ مغرب ہمیں جو دینا چاہتا تھا وہ ہم نے لے لیا ہے۔ ہمارے بچوں کی زندگی اب فیس بک، انسٹا، یوٹیوب، پب جی اور فری فائر کے گرد گھوم رہی ہے۔ کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں ہے۔ ہماری آج پوری دنیا کے حالات پر نظر ہے لیکن ہم اپنے گھروں سے بے خبر ہیں۔ ہمارے بچے اپنے کمروں میں کیا کررہے ہیں اس کا ہمیں کچھ علم نہیں ہے۔ اصل سازش اور اصل مداخلت تو یہ ہے جو ہمارے خلاف ہوئی ہے لیکن کوئی اس کا نوٹس لینے کو تیار نہیں ہے۔ آئیں پھر دعا زہرا کی بات کرتے ہیں آئیں پھر نمرہ کاظمی کرتے ہیں کیونکہ یہ کوئی آخری بات نہیں ہے بلکہ یہ تو شروعات ہیں۔