افطاری میں دس منٹ باقی تھے سعدیہ جلدی جلدی دستر خوان لگا رہی تھی آج پھر کل کی طرح دیر نہ ہوجائے –
فاریہ (سعدیہ کی دس سال کی بیٹی) نے دستر خوان لگتے ہی ہاتھ اٹھا ئے اور پورے انہماک سے اذان ہونے تک دعا مانگتی رہی، سعدیہ فاریہ کے اس طرح دعا مانگنے کو کئی بار نوٹ کرتی تھی پوچھا بھی کئی بار تھا لیکن ہر بار بار فاریہ اگنور کرتی تھی آج پھر سعدیہ نے پوچھا
فاریہ: بیٹا تم ہر روز اس طرح دعا مانگتی ہو ہمیں بھی تو بتاؤ کون سی دعا مانگتی ہو، فاریہ نے سعدیہ کی طرف دیکھا پھر نظریں جھپکا لیں جیسے بتانا نہ چاہ رہی ہو-
راحم فاریہ کا باپ پڑھا لکھا اور سلجھا ہوا شخص تھا چار سال پہلے تک ملٹی نیشنل کمپنی میں اچھی پوسٹ پر تھا لیکن کرونا کی وبا کے دوران بہت سے نوجوانوں کی طرح راحم کو بھی فارغ کردیا گیا تھا پھر والدہ بھی بیمار تھیں ان کی دوائیوں کا بھی کافی خرچہ تھا- پورے سال مشکل ہی سے دو ٹائم کا کھانا بنتا تھا اچھا کھانا تو میسر ہی نہ تھا- البتہ جب رمضان آتے تو خوب مزے مزے کے کھانے پکتے عید کے اچھے کپڑے بنتے گھر کا کوئی کام ہو رمضان میں ہی ہوتا تھا-
فاریہ نے جب سے تھوڑا ہوش سنبھالا تھا جب سے ہی افطار کے وقت رمضان میں دعا مانگتی تھی کیونکہ اس نے دادی سے سنا تھا کہ افطار کے وقت کی دعا اللہ تعالی رد نہیں کرتے-
اچھے وقتوں میں راحم کے والد نے اچھے پوش علاقے میں گھر بنایا ہوا تھا جہاں اچھے خوشحال لوگ رہتے تھے- سب جانتے تھے راحم کے تین بچے ہیں والدہ بیمار ہیں اور والد کا انتقال ہو چکا تھا اور راحم بے روزگار تھا- اسی وجہ سے محلے کے لوگ اپنی زکوۃ کا کچھ حصہ راحم کو ضرور دیتے تھے- والدہ کی بیماری کی وجہ سے راحم کو چاروناچار زکوٰۃ لیتا پڑتی تھی-
راحم کو دو دفعہ محلے کے زاہد صاحب نے بڑی کمپنی میں مستقل نوکری کے بارے میں بتایا لیکن دونوں دفعہ راحم کی والدہ اسپتال میں تھی جس کی وجہ سے وہ جا نہ سکا-
لیکن فاریہ کو کیا معلوم یہ سب اسے تو بس یہ معلوم تھا رمضان میں گھر میں خوب اچھا کھانا بنتا ہے لیکن پتہ نہیں اللہ تعالی میری یہ دعا قبول کیوں نہیں کرتے، تو کیا دادی جھوٹ بولتی ہیں ۔ نہیں دادی جھوٹ تو نہیں بولتیں، فاریہ اپنی الجھنوں کے تانے بانے بننے میں مصروف تھی کہ فائق، فاریہ کا چھوٹا بھائی نے آواز لگائی عید کا چاند ہو گیا ہے یا ہو ! ووو ! وو ، جیسے ہی فاریہ نے سنا اس کے آنسو تیزی سے بہنے لگے- دادی اور سعدیہ دونوں اسے دیکھ کر پریشان ہوگئیں؎-
کیا ہوگیا ہے میری بیٹی بتاؤ تو سہی دادی نے پچکارتے ہوئے کہا راحم جیسے ہی گھر میں داخل ہوا دونوں بچے نعرہ لگاتے ہوئے عید کا چاند ہو گیا، چاند مبارک، کہتے ہوئے راحم سے چمٹ گئے راحم نے بھی پیار کیا لیکن فاریہ کو دیکھ کر یک دم ٹھٹھک گیا ۔ کیا ہوا سعدیہ اسے، راحم نے بے چینی سے پوچھا- مجھے خود نہیں معلوم اسے کیا ہوا ہے آپ ہی پوچھیں مجھے تو کچھ نہیں بتارہی، سعدیہ نے جواب دیا-
فاریہ کا ضبط کا بندھن ٹوٹ چکا تھا اس نے اب باقاعدہ رونا شروع کر دیا- راحم کا تو دل جیسے کسی نے مٹھی میں بھینچ لیاہو ، فاریہ بیٹا میری گڑیا۔ میری جان بتاؤ کیا ہوا ہے؟ وہ وہ اللہ تعالی نے اس بار بھی میری دعا قبول نہیں کی فاریہ نے ہچکیاں لیتے ہوئے بتایا-
لیکن بیٹا کون سی دعا قبول نہیں کی اللہ تعالی نے، سعدیہ نے پوچھا
رمضان ختم نہ ہونے کی دعا میں چاہتی ہوں رمضان کبھی ختم نہ ہو، فاریہ نے کہا
راحم، دادی، سعدیہ تینوں فاریہ کی رونے وجہ جاننے کی کوشش میں لگے ہوئے تھے لیکن بیٹا تم ایسا کیوں چاہتی ہو را حم نے فاریہ کو گلے لگاتے ہوئے پوچھا۔
فاریہ نے کہا کہ ہم سب رمضان میں بہت خوش رہتے ہیں مزے مزے کے کھانے بنتے ہیں اور آپ کی اور امی کی لڑائی بھی نہیں ہوتی اور دادی کی دوائیاں بھی ٹھیک ٹائم پہ آتی ہیں اور اب پھر (آ نسو پوچھتے ہوئے) رمضان ختم ہوگئے اب ہم پھر پورے سال ویسے ہی رہیں گے فاریہ نے معصومیت سے روتے ہوئے بتایا – راحم دادی سعدیہ تینوں کی آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے- لیکن راحم نے فوراً کہنا شروع کیا بیٹا آپ سے کس نے کہا آپ کی دعا قبول نہیں ہوئی بیٹا آپ ہی کی تو دعا قبول ہوئی ہے، میری گڑیا. آپ ہی کی دعا قبول ہوئی ہے۔ میری جان۔ اب ہم پورے سال رمضان جیسے ہی رہیں گے میری بڑی کمپنی میں بہت اچھی تنخواہ کے ساتھ نوکری مل گئی ہے –
کیا اب ہر روز گھر میں کھانا بنے گا، فاریہ نے رونا چھوڑ کر جلدی سے پوچھا
راحم: جی بیٹا۔ جی اب دادی کی دوائیاں بھی ٹائم پر آئیں گی دادی اور سعدیہ کے چہرے بھی ایک دم کھل اٹھے-
دادی: اللّٰہ رب العلمین کا بے پناہ شکر ہے بیٹا اور اس کا شکر بجا لانے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ تم بھی اسی طرح کسی تنگ دست کا خیال رکھنا، سعدیہ نے کہاکہ ہاں لیکن صرف رمضان میں نہیں بلکہ پورے سال، راحم نے کہا ان شاءاللہ۔