عرصہ پہلے کی بات ہے کہ کسی کتاب میں ایک واقعہ پڑھا تھا ایک شخص کو جب پھانسی دینے کی نیت سے پھانسی گھاٹ کی طرف دھکیلا جا رہا تھا تو اچانک اس نے ایک عجیب حرکت کی اس نے متعلقہ حکام سے کچھ مہلت مانگی اور زمین پے بیٹھ کر اپنے جوتے کے کھلے تسمے کو بند کرنے لگا یہ ساری صورت حال دیکھ کر حکام بہت حیران ہوۓ کہ اس شخص نے یہ عمل کیونکر سر انجام دیا جب کہ اس کی زندگی کے تو کچھ ہی پل باقی رہ گیے ہیں حکام نے اس کی وجہ جاننے کے لیے اصرار کیا تو وہ شخص گویا ہوا کہ میں نے اپنے جوتے کا تسمہ اس لیے بند کیا کہ کہیں میرا دشمن یہ نا سمجھ بیٹھے کے موت کو سامنے دیکھ کر میرے اوسان خطا ہو گئے۔
مجھے یہ واقعہ کراچی کے خودکش حملے کی ویڈیو دیکھ کر یاد آیا جس میں چار افراد ہلاک ہوۓ ویڈیو میں صاف صاف دیکھا جا سکتا ہے کہ جیسے ہی حملے کا نشانہ بننے والی گاڑی نے موڑ لینا شروع کیا تو انتظار میں کھڑی خودکش حملہ آور نے ایک پل کے لیے اپنے سر کا دوپٹہ درست کیا اور جیسے ہی گاڑی اس کے پاس سے گزری اس نے خود کو دھماکے سے اڑا لیا وہ چند سیکنڈوں کی ویڈیو عام نہیں ہے میں یہ سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ بھلا موت کا فرشتہ نظر آنے کے بعد کوئ اپنا دوپٹہ سیدھا کیوں کرے گا کیا وہ بھی اوپر بیان کیے گیے واقعہ کی طرح کوئ پیغام تھا یا اپنی خود اعتمادی ظاہر کرنے کا بہانہ ؟بہر حال جو بھی تھا یہ نئ حکمت عملی ہے بہت خطرناک اور یہ اس بات کی طرف اشارہ بھی تھا کہ مجید بریگیڈ کے پاس یہ خاتون کوئی واحد خودکش بمبار نہیں ہو گی خدا نہ کرے آنے والے وقت میں ایسے مزید حملوں کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے اس قسم کی تنظیموں کے سلیپر سیلز ہر جگہہ موجود ہو سکتے ہیں جو اپنا اپنا کام بڑی ایمانداری اور ہوشیاری سے سر انجام دیتے رہتے ہیں۔
میں نے پہلے بھی اس بات کا ذکر کیا تھا کہ جب ملک کی مختلف جامعات میں بلوچ طابعلموں سے پوچھ گچھ کا سلسلہ شروع کیا گیا تو ایک مخصوص حلقے نے اس پر احتجاج شروع کر دیا کہ انہیں نا جائز تنگ کیا جا رہا ہے حالیہ خاتون خودکش بمبار نا صرف تعلیم یافتہ تھی بلکہ اس نے ایک ملکی جامعہ میں اپنے منصوبے(دھماکے) کو پایا تکمیل پہنچایا ہے اب ان احتجاج کرنے والے لوگوں کا کیا خیال ہے اسکیورٹی ایجنسیز کو اب اس بات کو بھی ملحوظ خاطر رکھنا ہو گا کہ کہیں جامعہ کے اندر سے ہی تو اس حملے کو پلان نہیں کیا گیا تھا یا ہو سکتا ہے ریکی کا فریضہ جامعہ کے اندر سے سر انجام دیا گیا ہو جو بھی ہو لیکن یہ بے حد خطرناک شروعات ہے۔
ہم بھارت بھارت کہہ کر اپنا پلہ کب تک جھاڑتے رہیں گے یہ دہشت گرد کسی ہریانہ کسی جھار کھنڈ کسی اتر پردیش یا تامل ناڈو میں پیدا نہیں ہوتے یہ ہماری ہی سر زمین پر پلتے اسی وطن کا کھاتے اسی وطن پر تھوکتے اور یہیں مرتے ہیں ان کا تدارک کرنا ریاست کا کام ہے اور ریاست کو چاہیے کہ ان کا پوری دنیا میں پیچھا کرے ہمارے پولیس افسران ایسے حملوں پر دلچسپ دلیلیں اور تاویلیں دیتے نظر آتے ہیں ان کے بقول خودکش حملوں کو روکا نہیں جا سکتا چلیں مان لیا لیکن خودکش جیکٹس کی تیاری سی فور جیسے کیمیکل اور بارود کو تو روک سکتے ہو یا نہیں؟ جب بانس ہی نہیں رہے گا تو با نسری کیسے بجے گی۔
کیا یہ بارود اور سی فور کیمیکل یہ دہشت گرد کچن گارڈننگ کی طرز پر گھروں میں اگاتے ہیں یا انہوں نے بھی کوئ آرڈیننس فیکٹری لگا رکھی ہے جہاں سے انہیں جب چاہا جتنا چاہا میسر آ گیا جتنا بارود ہمارے ہاں ان دہشت گردوں کے پاس موجود ہے اس سے آدھا بھی اگر یوکرائن کے پاس ہوتا تو وہ روس کو لتاڑ کر رکھ دیتا ہمارے ہاں دہشت گردی خورد رو جھاڑیوں کی طرح اگتی اور پھلتی پھولتی جا رہی ہے اس پر یہ ایک عورت کے ذریعے خودکش حملہ ایک نئ حکمت عملی کا آغاز ہے حکام بالا کو اس الارمنگ کنڈیشن کا سخت نوٹس لینا ہو گا ورنہ دہشت گردی ہمارا یوں ہی مقدر بنی رہے گی۔