ابھی حال ہی میں چینی صدر شی جن پھنگ نے برطانیہ میں پرائمری اسکول کے طلباء کے نام جوابی خط چین کے سبز ترقی کے وژن اور انسانیت اور فطرت کے درمیان ہم آہنگی کے ساتھ بقائے باہمی کو یقینی بنانے کے عزم کو متعارف کروایا۔اُن کی جانب سے واضح کیا گیا کہ چین موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کو بہت اہمیت دیتا ہے اور اس وقت ملک بھر میں تحفظ ماحول کے حوالے سے تصور شفاف پانی اور سرسبز پہاڑ انمول اثاثہ ہیں کو ملک بھر میں وسیع حمایت حاصل ہوئی ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ چین موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے غیر معمولی اقدامات اپنا رہا ہے جن سے قابل ذکر کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں اور مزید ٹھوس نتائج کے لیے کوششوں کو وسعت دی جائے گی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ شی جن پھنگ کے ماحولیاتی تہذیب کے وژن کی رہنمائی میں، چینی عوام میں ماحولیاتی تمدن کے بارے میں بیداری کو فروغ دینے سے لے کر نئے جنگلات، سبزہ زاروں اور ویٹ لینڈز کے تحفظ، فضائی اور آبی آلودگی کا مقابلہ کرنے تک، ملک کو سرسبز بنانے کے حوالے سے نمایاں پیش رفت ہوئی ہے۔
اقوام متحدہ کے حیاتیاتی تنوع کنونشن کی گزشتہ کانفرنس کے دوران جاری کیے گئے ایک سروے سے پتہ چلتا ہے کہ ماحولیاتی تہذیب کے تصور کو چین میں عام لوگوں میں اعلیٰ سطح کی مقبولیت حاصل ہے۔ ماحولیات اور ترقی کے درمیان ربط کے حوالے سے رائے شماری میں شامل تقریباً 55 فیصد لوگوں نے کہا کہ ماحولیاتی تحفظ کا عمل نئے اقتصادی مواقع لاتا ہے اور ایک امید افزا امکان پیش کرتا ہے، اس سروے کا اہتمام ریسرچ انسٹی ٹیوٹ فار ایکو سولائزیشن، چائنیز اکیڈمی آف سوشل سائنسز نے کیا تھا۔سروے نتائج 10,038 انٹرنیٹ سوالناموں کے جوابات پر مبنی ہیں، جن میں 3.5 ملین سے زائد آن لائن پوسٹس اور تبصرے شامل ہیں جن کا بگ ڈیٹا ٹیکنالوجی کے ساتھ تجزیہ کیا گیا ہے۔اس سروے سے پتہ
چلتا ہے کہ ماحولیاتی تحفظ نے چین میں ترقی اور عوام کی فلاح و بہبود کے معیار میں نمایاں بہتری لائی ہے۔ ماحولیاتی تہذیب، ایک نئے ترقیاتی ماڈل کی جانب رہنمائی کر رہی ہے ، جو ترقیاتی نقطہ نظر، کاروباری ماڈل، لوگوں کی خوشگوار زندگی سے متعلق سمجھ بوجھ، روزگار اور فلاح و بہبود کے بارے میں رویوں کو نئی شکل دے گی۔
یہی وجہ ہے کہ چین میں مختلف اقسام کے اسکولوں سمیت ہر سطح پر ماحولیاتی تہذیب کی تعلیم کو بہت اہمیت دی جا رہی ہے، چینی طلباء نے اپنی زندگی میں معمولی باتوں سے شروعات کرتے ہوئے، توانائی کے تحفظ اور ماحولیات کے تحفظ کی اچھی عادات کو اپنی زندگیوں میں شامل کیا ہے، اور سبز اور کم کاربن والی زندگی بسر کرنا سیکھ رہے۔تعلیمی ادارے ماحولیاتی تہذیب کی وہ مضبوط بنیاد ہیں جس پر گرین ترقی کی پوری عمارت کا دارومدار ہے۔حالیہ برسوں کے دوران اپنے ملک کو خوبصورت بنانے کے لیے چینی عوام کی مسلسل کوششوں کی بدولت جنگلات کا رقبہ وسیع ہوا ہے، ملک بھر کے رہائشی ماحول میں نمایاں بہتری آئی ہے، اور معیشت کو زیادہ پائیدار راستے پر گامزن رکھا گیا ہے۔ شجرکاری کی کوششوں کی بدولت چین میں گزشتہ دہائی کے دوران 64 ملین ہیکٹر رقبے پر درخت لگائے گئے ہیں۔ ملک میں جنگلات کا رقبہ مجموعی رقبے کے 23.04 فیصد تک پہنچ چکا ہے، جو 2012 کے مقابلے میں 2.68 فیصد زیادہ ہے۔ابھی حال ہی میں بیجنگ میں قومی نباتاتی باغ کا باضابطہ افتتاح کیا گیا ہے۔اس کا کل رقبہ تقریباً 600 ہیکٹر ہوگا اور یہاں نباتات کے تحفظ اور سائنسی تحقیقات کے بنیادی امور سر انجام دیئے جائیں گے۔ چین کے شمالی علاقے کی مقامی نباتات، شمال منطقہ معتدلہ کی نمائندہ نباتات،دنیا کے مختلف جغرافیائی زونز کی علامت،نایاب اور معدومیت کےخطرے سے دوچار تقریباً تیس ہزار سے زائد نباتات جمع ہوں گی۔دنیا بھر سے خشک نباتات کے 50 لاکھ نمونے جمع کیے جائیں گے۔اس باغ میں مختلف نباتاتی تنوع کے 20 مخصوص باغات، نباتات کے ارتقاء کی 7 نمائشی زونز اور مقامی نباتات کے تحفظ اور افزائش کا ایک علاقہ قائم کیا جائے گا۔
چین کی ماحولیاتی کوششوں کو بین الاقوامی سطح پر بھی پذیرائی ملی ہے۔ 2017 میں، چین کے سائی ہان با جنگلات نے چیمپیئنز آف دی ارتھ ایوارڈ جیتا، جو اقوام متحدہ کا اعلیٰ ترین ماحولیاتی اعزاز ہے۔ گزشتہ سال ملک میں ہوا کے اچھے معیار کے حامل دنوں کا تناسب بڑھ کر 87.5 فیصد ہو چکا ہے، جو 2020 کے مقابلے میں 0.5 فیصد پوائنٹس زیادہ ہے۔ ملک کی توانائی کی فی یونٹ جی ڈی پی کی کھپت میں 2011 سے 2020 تک 28.7 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ 2010 تا 2020 کی مدت کے دوران ملک میں توانائی کی کھپت کے مجموعی مرکب میں کوئلے کا تناسب 69.2 فیصد سے کم ہو کر 56.8 فیصد رہ گیا ہے۔ اگرچہ بدستور چیلنجز باقی ہیں مگر انہی اقدامات کی مضبوط بنیاد پر آگے بڑھتے ہوئے چین اپنے پالیسی ایجنڈے میں ماحولیاتی تحفظ کو سرفہرست رکھے ہوئے ہے جو ماحولیات کی بہتری کی عالمی کوششوں میں نمایاں شراکت اور ایک بڑے ملک کے ذمہ دارانہ کردار کی عمدہ ترجمانی ہے۔