مہنگائی مہنگائی مہنگائی ! جہاں دیکھو سننے کو ملتا ہے کہ مہنگائی بہت بڑھ گئی ہے سمجھ نہیں آتا کہ گھر کا خرچ کیسے چلائیں مسئلہ صرف مہنگائی کا نہیں ہے بلکہ اس میں کچھ ہاتھ ہمارے صنعتی اداروں کے مالکان کا بھی ہے اگر ملازمین کو ان کی تنخواہیں، انکریمنٹ اور بونس وغیرہ وقت پر مل جائیں تو بہت سے ملازمین آسودہ زندگی گزار سکتے ہیں۔
جب تنخواہ بڑھائی جاتی ہے تو اس کے ایک سال کے بعد ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کیا جاتا ہے جبکہ کاغذی کارروائی میں ایک سال پہلے وہ دکھائی جاتی ہیں جب ایک سال بعد ان کی اعلان شدہ رقم ملازمین کو ملتی ہے تو مہنگائی مزید ڈبل ہوچکی ہوتی ہے ہمارے فیکٹری مالکان جب تنخواہوں میں اضافے کا اعلان کرتے ہیں جب ہی ملازمین کو وقت پر پوری تنخواہ دے دیں تو ملازمین بھی خوش ہو کر اور دل لگا کر کام کریں گے جب ملازم اپنے ہی پیسے کے لیے بلکتا رہے گا اور ایڈوانس کے لئے اپنے مینیجر اور کیشئر کے پاس چکر کاٹتا رہے گا تو اس کے دل میں نہ چاہتے ہوئے بھی اپنے مالکان کے لیے بد دعائیں اور آہیں نکلتی ہیں کیونکہ وہ اپنے ہی خون پسینے کی کمائی حاصل کرنے کے لیے جگہ جگہ ذلیل ہوتا ہے ہر جگہ اس کی تذلیل کی جاتی ہے۔
ایک طرف تو فیکٹری مالک یہ ظاہر کرتے ہیں کہ فیکٹری بہت خسارے میں چل رہی ہے اس لیے ملازمین کی تنخواہ لیٹ ہوگئی ہے یا انکریمنٹ لیٹ ہو گیا ہے اور دوسری طرف باہر ممالک کے ایونٹ انجوائے کرنے کے لئے لاکھوں روپے خرچ کرتے ہیں (جبکہ ملازم عید کی خریداری میں جو ملتا ہے جیسا ملتا ہے لے کر آجاتا ہے کہیں بچوں کے منہ بند کر دئیے جاتے ہیں) وہ یہ مالکان کہاں سے کماتے ہیں آج اگر یہ ملازمین کام چھوڑ دیں تو کہاں سے بنا پائیں گے یہ اپنا بینک بیلنس انہیں مزدوروں کی محنت کو یہ مالکان ایسی آسانی سے اڑا دیتے ہیں جیسے پیسہ کمانا کوئی مشکل کام نہیں جبکہ آج ان سے کہا جائے کہ یہ مالکان کا سامان ہی لوڈ کر کے دکھا دیں تو انہیں پتہ چل جائے کہ محنت کسے کہتے ہیں اے سی والے کمروں میں بیٹھ کر مہنگی اور نئے ماڈل کی گاڑیوں میں سفر کر کے مالکان بڑی آسانی سے غریب مزدور کی خواہشات ان کے احساسات ان کے جذبات کو انتہائی بے دردی سے روندتے ہوئے چلے جاتے ہیں اور ان کو احساس تک نہیں ہوتا کہ ہم نے کسی پر کتنا ظلم کر دیا مینجمنٹ لیول کے تمام افسران کو تمام سہولیات دی جاتی ہیں اور ان کی یوٹیلیٹی بل دیے جاتے ہیں ان کے بچوں کی فیسیں الگ سے دی جاتی ہیں ان کو رہنے کے لیے بینگلوز دیے جاتے ہیں گاڑیاں دی جاتی ہے اور پھر اچھی خاصی رقم تنخواہ کے نام پر بھی دی جاتی ہے اگر اس سے آدھی بھی سہولیات مالکان اپنے مزدور کو دے دیں تو وہ خوشی خوشی اور دل لگا کر اور زیادہ محنت سے کام کرنے لگے گا جس سے انہیں مالکان کی ترقی ہوگی۔
رمضان میں بونس کا اعلان ہوتا ہے اور بونس ملتا کبھی رمضان کی 27یا 28 تاریخ کو ہے اب بے چارے ملازم اپنے بچوں کے لئے عید کی تیاری کیسے کریں جب کہ وہی رمضان کے خاص دن ہوتے ہیں رحمتیں برکتیں سمیٹنے کے دن ہوتے ہیں اور اپنی بخشش کا سامان کرنے کے دن ہوتے ہیں اور ان دنوں میں پھر وہ ملازم اپنے بچوں کی عید کی خریداری میں جو ملتا ہے جیسا ملتا ہے کہیں بچوں کے منہ بنے ہوتے ہیں کہ ہمیں ایسے کپڑے چاہیے تھے ہمیں ایسے جوتے لینے تھے ہماری چیزیں مکمل نہیں آئی ہم نے یہ بھی لینا تھا وہ بھی لینا تھا میری صنعتی اداروں اور فیکٹری مالکان سے گزارش ہے کہ خدارا اپنے ملازمین کی تنخواہ اور بو نس وغیرہ رمضان کے شروع میں دے دیا کریں تاکہ وہ بھی اپنے گھر میں ضروریات زندگی کا سامان راشن وغیرہ لے سکے اور عید سے قبل خریداری کرکے اپنے بچوں کو خوشیاں دے سکیں۔ اللہ پاک ہم سب کو ہدایت عطا فرمائے اور سب کی فکر کرنے والا بنائے آمین ثم آمین