ابھی حال ہی میں چینی حکام کی جانب سے بتایا گیا کہ تاحال چین نے ”بیلٹ اینڈ روڈ” کی مشترکہ تعمیر کے لیے پاکستان سمیت 149 ممالک اور 32 بین الاقوامی تنظیموں کے ساتھ 200 سے زائد تعاون کی دستاویزات پر دستخط کیے ہیں جو اس منصوبے پر عالمی اعتماد کی بہترین عکاسی ہے۔ چین نے رواں سال کے آغاز سے ”بیلٹ اینڈ روڈ” کے حوالے سے چار مزید ممالک بشمول نکاراگوا، شام، ارجنٹائن اور ملاوی کے ساتھ ”بیلٹ اینڈ روڈ” بین الحکومتی تعاون کی دستاویزات پر دستخطوں سمیت دیگر شراکت داروں کے ساتھ بھی تعاون کو مسلسل توسیع دی ہے۔ بیلٹ اینڈ روڈ کے تحت پہلی سہ ماہی میں، چین۔یورپ مال بردار ٹرینوں نے 36 سو سے زائد ٹرینیں چلائیں اور ساڑھے تین لاکھ کینٹینرز کی نقل و حمل کی گئی ہے۔ یہ بات قابل زکر ہے کہ ٹرینز کا ماہانہ حجم مسلسل 23 مہینوں سے ایک ہزار ٹرینوں سے اوپر چلا آ رہا ہے، جس سے عالمی صنعتی چین اور سپلائی چین کے استحکام کو مؤثر طریقے سے یقینی بنایا گیا ہے۔
اسی تناظر میں سی پیک کو بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو کا فلیگ شپ منصوبہ سمجھا جاتا ہے جس کی کامیاب تکمیل چین اور پاکستان سمیت اس پورے اقدام کو آگے بڑھانے میں کلیدی حیثیت رکھتی ہے۔ چین پاکستان اقتصادی راہداری یا جسے ہم مختصراً سی پیک بھی کہتے ہیں، کو پاکستان کی اقتصادی سماجی ترقی کا اہم محرک قرار دیا جا رہا ہے۔ حالیہ برسوں میں سی پیک منصوبہ جات کی تکمیل سے پاکستان میں بجلی کی قلت کے دیرینہ مسئلہ سے نمٹنے سمیت بنیادی ڈھانچے بالخصوص ذرائع آمد ورفت کی بہتری میں بھی نمایاں مدد ملی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ سات برسوں میں پاکستان میں برسراقتدار ہر حکومت نے سی پیک کی تعمیر کو ہمیشہ اپنے سرفہرست ایجنڈے میں رکھا ہے اور متعلقہ منصوبہ جات کو آگے بڑھایا ہے۔ ابھی حال ہی میں
نو منتخب وزیراعظم شہباز شریف نے چین کے تعاون سے زیرتعمیر دیامیر بھاشا ڈیم کا دورہ کیا۔ وزیراعظم بننے کے بعد بنیادی تنصیبات کے حوالے سے یہ وہ پہلا پروجیکٹ ہے جس کا انہوں نے معائنہ کیا ہے۔ چیئرمین واپڈا لیفٹیننٹ جنرل(ر)مزمل حسین نے اس موقع پر تفصیلی بریفنگ دی اور وبائی صورتحال کے دوران، چینی کاروباری ادارے کے تعمیراتی کام کو بروقت مکمل کرنے کو سراہا۔
شہباز شریف کا یہ کہنا ہے کہ دیامیر بھاشا ڈیم، پاکستان کی معاشی و معاشرتی ترقی میں بنیادی کردار ادا کر رہا ہے۔ پروجیکٹ مکمل ہونے کے بعد دیامیر بھاشا ڈیم پاکستان کا سب سے بڑا ڈیم بن جائے گا اور یہ روزگار کی فراہمی، پیشہ ورانہ صلاحیتوں کے فروغ، آبپاشی کے نظام کی بہتری اور بجلی کی قیمت کم کرنے میں اہم کردار ادا کرے گا۔انہوں نے اس کثیر المقاصد دیامیر بھاشا ڈیم کو پاکستان میں آبی سلامتی اور شفاف توانائی کی ضروریات کے لئے انتہائی اہم قرار دیا۔ شہباز شریف نے یہ توقع بھی ظاہر کی کہ2029 کی ابتدائی ڈیڈ لائن کی بجائے اس منصوبے کو 2026 تک مکمل کیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر ہم پاکستان کی تعمیر نو کیلئے دل و جان سے کاوشیں کریں تو کوئی بھی چیز ناممکن نہیں ہے۔
اسی طرح سی پیک کے حوالے سے سامنے آنے والی ایک اور نمایاں پیش رفت میں اٹھارہ اپریل سے کراچی میں چینی ساختہ ”ہوا لونگ۔ون ” تھرڈ جنریشن نیوکلیئرری ایکٹر پر مشتمل پہلے بیرون ملک منصوبے کا یونٹ۔تھری کمرشل آپریشن کے لیے فعال ہو چکا ہے۔ کراچی کا یونٹ تھری دنیا میں چوتھا جب کہ چین سے باہر دوسرا نیوکلیئر پاورپلانٹ ہے جو ”ہوا لونگ۔ون ری ایکٹر ”پر مبنی ہے۔ یونٹ۔ٹو پہلے ہی فعال ہو چکا ہے اور اب یونٹ۔ تھری کے فعال ہونے کے بعد یہ دونوں یونٹس بیس بلین کلو واٹ فی گھنٹہ بجلی پیدا کرنے کے قابل ہو گئے ہیں جو کہ پاکستان میں توانائی کے ڈھانچے کی بہتری کے لیے بے حد اہم ہے۔ ہوالونگ ون منصوبہ چین میں مقامی سطح پر تیار کردہ تیسری نسل کا ری ایکٹر ہے جس کا شمار دنیا کے انتہائی جدید جوہری توانائی ری ایکٹر زمیں ہوتا ہے۔یہ چین کی تھرڈ جنریشن ” پریشرائزڈ
واٹر ری ایکٹر ” ٹیکنالوجی پر مشتمل ہے اور سکیورٹی کیاعلیٰ ترین بین الاقوامی معیار پر پورا اترتا ہے۔ دوسری جانب کراچی یونٹ۔ تھری کا فعال ہونا سی پیک کے نتائج و کامیابیوں کے استحکام کا مظہر اور دی بیلٹ اینڈ روڈ سے وابستہ ممالک کے سامنے متعلقہ ٹیکنالوجی کا مثالی نمونہ ہے۔
اس نظام کے تحت تا حال چین میں آٹھ ری ایکٹرز زیر تعمیر ہیں جبکہ ہوالونگ ون جوہری توانائی کے پیداواری منصوبے کی برآمد نے عالمی سطح پر بھی شاندار نتائج حاصل کیے ہیں اور پاکستان کے علاوہ سعودی عرب، ارجنٹائن اور برازیل سمیت 20 سے زائد ممالک اور خطوں نے چین کے ساتھ تعاون کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔ یہ امر خوش آئند ہے کہ چین کاربن اخراج میں کمی کے مقصد کے تحت مضبوط حفاظتی معیارات کی بنیاد پر اپنی جوہری طاقت تشکیل دے رہا ہے۔ گزشتہ سال کے اواخر تک، ملک میں 53 نیوکلیئر پاور یونٹس فعال ہو چکے ہیں جن سے مجموعی طور پر 407 بلین کلو واٹ بجلی پیدا کی جا رہی ہے، جو کہ ملک میں توانائی کی مجموعی سالانہ پیداوار کا تقریباً 5 فیصد بنتا ہے۔ یہ توقع کی جا رہی ہے کہ 60 سال کی ڈیزائن لائف کے ساتھ، ہوالونگ ون ٹیکنالوجی صنعتی چینز کے لیے مزید پائیدار اقتصادی ثمرات لائے گی۔
دوسری جانب یہ پہلو بھی توجہ طلب ہے کہ چین اپنے تمام شراکت داروں کے ساتھ مل کر بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو کی سبز ترقی کو فروغ دینے کے لیے بھرپور کوشش کر رہا ہے۔ اس ضمن میں سبز ترقی کے اہم شعبوں میں مربوط تعاون کا فروغ، بیرون ملک منصوبوں کو سبز ترقی کے نظریے پر کاربند رہتے ہوئے آگے بڑھانا اور ہم آہنگ اور سبز ترقی کے لیے حمایت اور گارنٹی کے نظام کو بہتر بنانے جیسے اقدامات شامل ہیں، جن سے پاکستان جیسے موسمیاتی تبدیلی سے شدید متاثرہ ممالک میں ماحولیاتی مسائل سے نمٹنے میں بھی نمایاں مدد ملے گی۔