فضائے بدر کو ایک آپ بیتی یاد ہے اب تک
یہ وادی نعرہ توحید سے آباد ہے اب تک
حضرت عبداللہ ابن مسعود فرماتے ہیں کہ ! بدر کے دن (نبی کریم ﷺ نے انصار سے ان کی رائے پوچھی) تو مقدار بن اسود نے کہا کہ یا رسول اللہ ! کیا ہم آپ کو وہ جواب دیں گے جو بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ کو دیا تھا کہ تم اور تمہارا رب ہی جا کر لڑو ہم تو یہاں بیٹھے ہیں. (نہیں) بلکہ آپ جہاں چلیں وہیں ہم آپ کے ساتھ (جان دینے کو حاضر) ہیں۔ اس جواب پر نبی کریم ﷺ کے سب فکر دور ہو گئے۔ (صحیح بخاری)
قرآن مجید کا ترجمہ وتفسیر پڑھاتے ہوئے جب بھی غزوہ بدر کا تذکرہ آتا تو میری خواہش ہوتی کہ میں اس حوالے سے کچھ اہم نکات قلم کی مدد سے قرطاس پر منتقل کروں جو میرے ذہن میں گردش کر رہے ہوتے تھے لیکن آج سے پہلے یہ ممکن نہیں ہو سکا تھا۔ البتہ میں نکات نوٹ کر لیتی تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ وقت کی دستیابی کے ساتھ ساتھ تحریری کام اللہ کے فضل و کرم سے ہی ممکن ہوسکتا ہے۔
غزوہ بدر 17 رمضان المبارک 2ھ بروز جمعہ کو پیش آیا۔ اس عظیم غزوہ کو دیگر غزوات پر کئی لحاظ سے فوقیت اور اہمیت حاصل ہے۔ قرآن مجید میں کئی مقامات پر اس کا تفصیلی و جزوی تذکرہ کیا گیا ہے۔ اللہ تعالی نے خود قرآن مجید میں اسے “یوم الفرقان” کا نام دیا ہے۔ یہ مسلمانوں اور کافروں کے درمیان پہلی باضابطہ جنگ تھی جس میں اللہ تعالیٰ نے حق کو حق اور باطل کو باطل کر دکھایا۔ یہ حق و باطل، کفر و اسلام، نور و ظلمت، نیکی و بدی اور خیر و شر کی جنگ تھی جس میں اللہ تعالیٰ نے اپنے ماننے والی کی قلیل تعداد کو غالب کر دیا۔ غزوہ بدر میں اللہ تعالیٰ نے “اعلائے کلمۃ اللہ” کی خاطر سر پر کفن باندھ کر نکلے مُٹھی بھر سرفروشان اسلام کو اپنے سے تین گنا زیادہ طاقتور دشمن پر فتح و نصرت عطا فرمائی تھی۔
رحمان کا یہ قلیل اور بے سرو سامان گروہ شیطان کے مغرور و متکبر عظیم الشان مسلح گروہ سے نبرد آزما تھا مگر جنگیں مادی اسباب سے نہیں لڑی جاتیں بلکہ اعلیٰ مقاصد اور تؤکل و ایمان سے فتح یاب ہوتی ہیں۔ مسلمانوں کے سپہ سالار خود نبی کریم ﷺ تھے اور کفار کا سپہ سالار ابوجہل تھا جو اس غزوہ میں دو کم سن مسلمان بچوں معاذ اور معوذ رضی اللہ عنہما کے ہاتھوں جہنم رسید ہوا تھا۔ جس کا دیگر گناہوں کے علاوہ سب سے بڑا جرم “توہین رسالت” کا مرتکب ہونا تھا۔ اور جسے نبی اکرم ﷺ نے “فرعون ھذہ الامۃ” (اس امت کا فرعون) قرار دیا تھا۔
غزوہ بدر مسلمانوں کو بڑے اہم عملی اسباق سکھاتا ہے کہ ظاہری وسائل و ذرائع کی کمی کے باوجود اگر مسلمان اللہ تعالیٰ پر کامل توکل رکھتے ہوں تو وہ انہیں بے یارومددگار نہیں چھوڑتا۔ ان کی ظاہری اسباب سے بھی مدد فرماتا ہے اور مافوق الفطرت اسباب سے بھی۔
؎ فضائے بدر پیدا کر، فرشتے تیری نصرت کو
اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی
ظاہری اسباب میں بارش کا نزول، (اور اس کے ذریعے پانی کی فراہمی، ریتلی زمین کا سخت ہو جانا) جنگ کے دوران مسلمانوں پر کچھ دیر کے لیے اونگھ طاری ہونا، نبی اکرم ﷺ کے ہاتھوں پھینکی گئی ریت کی مٹھی کا کفار کی آنکھوں میں پڑنا وغیرہ شامل ہیں۔ جبکہ مافوق الفطرت اسباب میں آسمان سے ایک ہزار فرشتوں کا نزول شامل ہے۔ جہاد فی سبیل اللہ کرتے ہوئے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر رضائے الٰہی کی خاطر اور اللہ کے دین کو سر بلند کرنے کے لئے سعی پیہم کرنا اعلیٰ ترین نیکیاں ہیں اور یہ اعمال کرنے والے اللہ کے ہاں بہت اعلیٰ کا مقام و مرتبہ کے حامل ہیں۔
ابو الاثر حفیظ جالندھری مرحوم نے غزوہ بدر کے ظاہری وسائل کے بارے میں کیا خوب لکھا ہے:۔
؎ تھے اُن کے پاس دو گھوڑے، چھ زرہیں، آٹھ شمشیریں
پلٹنے آئے تھے یہ لوگ دُنیا بھر کی تقدیریں
نہ تیغ و تیر پہ تکیہ، نہ خنجر پر نہ بھالے پر
بھروسہ تھا تو اِک سادی سی کالی کملی والے پر
صلی اللہ علیہ وسلم!
غزوہ بدر میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے اتفاق و اتحاد، “توکل علی اللہ” اور “رجوع الی اللہ” کو پسند فرمایا۔ اسے اپنا ذکر کرنے والے اور اپنی ذات سے تعلق مضبوط رکھنے والے مسلمان بہت پسند ہیں اور وہ ان کی مدد و سرپرستی فرماتا ہے۔ اس کے ہاں عاجزی اور انکساری بہت اہمیت و فضیلت کی حامل ہیں۔ وہ کفر، منافقت اور فسق و فجور کو پسند نہیں کرتا اور وہ غرور و تکبر کرنے والوں کا سر نیچا کرکے انہیں ذلیل و خوار کر دیتا ہے۔ کفار بڑے غرور سے اکڑتے ہوئے اسلام اور مسلمانوں کو سرنگوں کرنے کے لیے بھرپور قوت و طاقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے آندھی و طوفان بن کر آئے تھے لیکن خود ذلیل و خوار ہو کر واپس اس حال میں پلٹے کہ دعائے رسول ﷺ سے ان کے بڑے بڑے ستر سردار مارے گئے حتیٰ کہ ان کا سردار ابو جہل دو نوعمر بچوں کے ہاتھوں قتل کیا گیا۔ اور ستر معزز سردار قیدی بنا کر گرفتار کر لیے گئے۔ اور ان کی کمر ہی ٹوٹ گئی۔ جبکہ مسلمانوں کی طرف سے چودہ صحابہ کرام نے بہادری اور شجاعت کی تاریخ رقم کرکے شہادت پائی تھی۔ جن میں چھ مہاجرین اور آٹھ انصار تھے۔ رضی اللہ عنہم!
کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے۔
؎ نہتے تین سو تیرہ بشر ذوق شہادت میں
خدا کے نام پر نکلے محمؐد کی قیادت میں
نہ کثرت تھی نہ شوکت تھی، نہ کچھ سامان رکھتے تھے
فقط اخلاص رکھتے تھے، فقط ایمان رکھتے تھے
غزوہ بدر کو گزرے تقریباً ساڑھے چودہ صدیاں بیت چکی ہیں مگر اس کا تذکرہ آج بھی مسلمانوں کے دلوں کو گرما دیتا ہے اور ان کا ایمان تازہ کر دیتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کا فیصلہ تا ابد یہی ہے کہ کتب اللہ لاغلبن انا ورسلہ (سورۃ المجادلہ:21)
ترجمہ: “اللہ نے لکھ دیا ہے کہ میں اور میرے رسول ہی غالب رہیں گے۔”
مومنین صادقین 313 ہو کر کفار پر غالب آگئے تھے اور آج مسلمان ڈیڑھ ارب کی تعداد میں ہونے کے باوجود ناقص اخلاص و ایمان کی بنا پر زبوں حالی کا شکار ہیں اور ہر جگہ گاجر مولی کی طرح کٹ رہے ہیں۔
؎ ہتھیار ہیں، اوزار ہیں، افواج ہیں لیکن
وہ تین سو تیرہ کا لشکر نہیں ملتا
بزدلی اور کم ہمتی اختیار کرنے والے سدا پیچھے رہ جاتے ہیں اور اسلام پر استقامت اختیار کرنے والے تا ابد اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور اعمال صالحہ کے حق دار بن جاتے ہیں۔
بلاشبہ جو اللہ تعالیٰ کے دین کے انصار ومددگار بنتے ہیں، اللہ تعالیٰ انہیں کبھی ضائع نہیں کرتا!