آج صہیب کا روزہ تھا۔ وہ سحری کے بعد دادا جان کے ساتھ مسجد میں نماز پڑھ کر آیا تو انہی کے بستر میں ان کے ساتھ لیٹ گیا۔ داد جان نے کہاکہ صہیب یہ مسنون دعا یاد کرو۔
’’اَللّٰھُمَّ اِنِّی اَسْئَلُکَ الْھُدیٰ وَالتُّقیٰ وَالْعَفَافَ وَالْغِنیٰ‘‘ ۔ اے اللہ ! بے شک، میں تجھ سے ہدایت، پرہیزگاری ،عفت اورلوگوں سے بے پروائی مانگتا ہوں۔ آمین (صحیح مسلم)۔ صہیب دعا یاد کرتے کرتے دادا جان ہی کے پاس سو گیا۔ دادا جان نے پیار سے اس کی معصوم اور بھولی بھالی صورت دیکھی اور اسے چادر اوڑھا کے تلاوت قرآن میں مشغول ہو گئے ۔
صہیب سو کر اٹھا تو امی ابو کی باتوں کی آواز آ رہی تھی۔ وہ انہیں کے پاس چلا آیا۔ ننھی امامہ بھی جاگ رہی تھی وہ اس کے ساتھ کھیلنے لگا۔ ابو جان امی جی کو بتا رہے تھے، صہیب بھی سننے لگا۔ کل دفتر سے واپسی پر بہت رش تھا۔ ٹریفک جام کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ مجھ سے پیچھے والی گاڑی میں جو صاحب تھے معلوم نہیں انہیں کیا ہوا بغیر کسی وجہ کے آکر مجھ سے الجھنے لگے۔ اگر یہ حدیث روزہ صرف کھانا پینا چھوڑنے کا نام نہیں ہے بلکہ روزہ تو ہر بےفائدہ اور بےہودہ کام سے بچنے کا نام ہے لہذا اگر کوٸی تمہیں گالی دے یا جہالت کی باتیں کرےتو اسے کہہ دو کہ میں روزہ دار ہوں ۔ میں روزہ دار ہوں۔ میرے ذہن میں نہ ہوتی تو اچھا خاصا جھگڑا ہو جاتا اور ایک تماشا بن جاتا۔
اچھا ! کیا اتفاق ہے کل میں بھی اسی حدیث کے بارے میں سوچتی رہی۔ دن بھر کے کاموں میں مختلف کام ایسے ہیں جن کا دنیا اور آخرت میں کوئی فائدہ نہیں۔ نیت کی ہے کہ اس رمضان سے ایسے سب فالتو کاموں اور چیزوں کو زندگی سے نکال دوں اور پھر اس پر ثابت قدم رہوں۔“ ”ماشاءاللہ آپ نے بہت اچھی بات سوچی ہے۔ ابا جان امی جان کی جانب دیکھ کر مسکرا دئیے ۔ ”اررے اررے امامہ یہ کیا کیا؟ بےساختہ صہیب کے منہ سے نکلا جب ننھی امامہ نے میز پر پڑی امی جان کی ڈائری پکڑنے کی کوشش میں اس کا صفحہ تھوڑا سا پھاڑ دیا۔ ”اوہ امامہ یہ کیا کیا؟ امی نے دکھ سے کہا۔ کوٸی بات نہیں امی جی لائیں میں ابھی ٹیپ سے اسے جوڑ دیتا ہوں۔ صہیب بھاگ کر اپنی ٹیپ لے آیا اور پھٹا ہوا صفحہ جوڑنے لگا۔
صہیب صفحہ جوڑ کر اسے پڑھنے لگا۔ امی جان نے لکھا تھا۔ روزے کا اصل مقصد تقوی کا حصول ہے۔ تقوی کے معنی بچنے کے ہیں۔ یعنی روزہ رکھ کر نہ صرف یہ کہ مجھے کھانا پینا چھوڑنا ہے بلکہ ہر قسم کے گناہ حتی کہ دل میں آ جانے والے برے خیال، غیبت، جھوٹ، بدگمانی اور لڑاٸی جھگڑا بھی چھوڑنا ہے۔ عبادت میں جیسے میں نے نماز، تلاوت قرآن اور روزے میں اپنے جسم کو اللہ پاک کے آگے جھکا لیا ہے بالکل اسی طرح مجھے اپنے دل کو اللہ کی محبت، اللہ کے خوف اور اللہ ہی سے امید کا مرکز و محور بنانا ہے۔ مجھے اپنے سارے کام اور سب لوگوں کے ساتھ اپنے معاملات بھی اللہ پاک ہی کی محبت اور خوف کے ساتھ انجام دینے ہیں۔یہی تقوی ہے اور اس کے حصول کے لیے میں نے اس رمضان میں اس دعا کو بار بار مانگنا ہے۔ ’’اَللّٰھُمَّ اِنِّی اَسْئَلُکَ الْھُدیٰ وَالتُّقیٰ وَالْعَفَافَ وَالْغِنیٰ“ ارے یہ تو وہی دعا ہے جو مجھے صبح دادا جان نے یاد کروائی تھی۔ صہیب امی جان کی ڈائری میں یہ دعا پڑھ کر بہت خوش ہوا۔
وہ سوچ رہا تھا۔ آج امی کی ڈائری میں مشکل مشکل باتیں لکھی تھیں لیکن پھر بھی مجھے سمجھ آیا کہ اللہ پاک کی محبت اور ان کے ڈر کی وجہ سے مجھے غلط کام نہیں کرنے اور مجھے سحر و افطار میں یہ دعا خوب خوب مانگنی ہے۔
’’اَللّٰھُمَّ اِنِّی اَسْئَلُکَ الْھُدیٰ وَالتُّقیٰ وَالْعَفَافَ وَالْغِنیٰ‘‘