غزوہ بدر 17 رمضان المبارک 02 ہجری اسلامی تاریخ کا وہ عظیم اور تاریخ ساز دن ہے جب اسلام و کفر اورحق و باطل کے درمیان پہلی معرکہ آرائی ہوئی۔ حق وباطل کے درمیان فرق کھل کر سامنے آیا، اور اللہ تعالیٰ نے اپنی نصرت کے ذریعے مسلمانوں کو فتح مبین سے نوازا۔ اس دن مسلمانوں نے ثابت کردیا کہ اگر ایمانی کیفیت اور اللہ پر پختہ یقین ہو تو جنگیں اسلحوں، ٹیکنالوجی اور افرادی قوت سے نہیں ، بلکہ ایمان اور کامل یقین سے جیتی جاسکتی ہیں۔ ہجرت کے دوسرے سال جب کفار کے ایک ہزار کے لشکر کے سامنے خاتم النبیین محمد صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم اپنے 313وفادار سرفروشوں کو لیکر میدان بدر میں تن تنہا کھڑے ہوگئے ۔ بے سروسامانی کے عالم میں دین اسلام کے سرفروش وقت کی سپر طاقت سے جا ٹکرائے اور اپنے ایمانی جذبے کے ذریعے کفار کو شکست فاش دے کر قیامت تک کے لیے دین کا پرچم بلند کردیا اور بدر کی فتح نے مدینے کی اسلامی ریاست کو استحکام بخشا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو خود اس معرکے کی قیادت کر رہے تھے ، آپ نے اپنے تمام ساتھیوں کو میدان جنگ میں جمع کیا اور اللہ سے دعا اور رجوع کرتے ہوئے کہا کہ ’’اے میرے مالک میں نے تیرے دین کی خاطر تیرے ان کمزور بندوں کو جمع اور تیارکیا ہے یہ بظاہر بہت کمزور لاغر ہیں لیکن تیرے دین پر مٹ مٹنے والے اور اپنی جان مال اسباب لٹانے والے ہیں۔ اے میرے ربّ تو کمزوروں کو قوی کردیتا ہے آج یہ تیرے بندے تیرے دین کو بچانے آئے ہیں تو انہیں کامیابی اور کامرانی عطا فرما اگر یہ شکست کھا گئے تو قیامت تک تیرے دین پر کام کرنے والا کوئی نہیں ہوگا‘‘۔ اللہ کے رسول ؐ کی یہ دعا ربّ کے حضور مقبول ہوئی پھر چشم فلک نے دیکھا کہ اللہ کے فرشتے میدان بدر میں اترے اور کفار کو عبرت ناک شکست ہوئی، کفر اور اسلام کی اس پہلی لڑائی اور جنگ نے مسلمانوں کو عظیم الشان فتح سے نواز۔ قرآن میں اس کا ذکر ’’یوم فرقان‘‘ کے نام سے آیا ہے ۔
اس جنگ میں کفار کے پائوں اکھڑ گئے ان کا بڑا جانی مالی نقصان ہوا۔ اس کی مثال غزوہ بدر کا ایک بے نظیر واقعہ ہے۔ ایک طرف طاقت اور قوت کا پہاڑ ابو جہل تھا، جس نے اپنے آپ کو زرّہ بکترمیں چھپا رکھا تھا۔ اس کی صرف دو آنکھیں نظر آتی تھیں۔ دوسری طرف عفرا کے دو کم عمر بیٹے معوذ اور معاذ تھے، جنہوں نے ابھی زندگی کی بہاریں نہیں دیکھی تھیں۔ ابوجہل کے سامنے ان کی حیثیت بالکل ایسی تھی جیسے ہاتھی کے سامنے چیونٹی۔مگر ان دو کم عمر مجاہدین نے ابو جہل کی دونوں آنکھوں پر تاک کر ایسا نشانہ مارا کہ خاک و خون میں تڑپنے لگا۔ اس طرح دین اسلام کا سب سے بڑا دشمن ابوجہل دو معصوم بچوں معاذ اور معوذ کے ہاتھوں مارا گیا۔ معرکہ بدر رہتی دنیا تک مسلمانوں کے لیے ایک سبق ہدایت اور رہنمائی کا راستہ ہے ۔ معرکہ بدر نے دنیا پر ثابت کیا کہ جنگوں میں اسلحہ طاقت اور جنگی قوتوں کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی بلکہ جنگوں میں ایمانی قوت کی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔
پختہ ایمان اور کامل یقین ایک ایسی قوت اور ایسا اسلحہ ہے کہ کوئی بارود اور ایٹم بم بھی اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا ہے اور نہ اس کے سامنے ٹھہر سکتا ہے ۔ غور کیجئے معلوم ہوگا کہ ثابت قدمی کا انحصار حوصلے پر ہے، حوصلے کا دارومدار طاقت پرہے اور قوت ایمانی وہ ملکوتی طاقت ہے جو جسم میں بجلی بھر دیتی ہے، حوصلہ بڑھاتی ہے ۔جس میدا ن جنگ میں مرد مجاہد دشمن کے سامنے ڈٹ جاتاہے اس طرح ایک ایک مجاہد بیس بیس کافروں پر بھاری ہوتا ہے۔ بے شک اللہ ربّ العالمین ایک مچھر کے ذریعے فرعون کو ہلاک کردیتا ہے ۔ آج کشمیر، فلسطین، افغانستان، شام، عراق، بھارت، برما میں مسلمانوں پر بدترین ظلم ڈھائے جا رہے ہیں۔ مسلمانوں کا خون ناحق پانی کی طرح بہایا جا رہا ہے ۔ مسلمان آج دنیا بھر میں ذلیل ورسوا صرف اس وجہ سے ہورہے ہیں کہ انہوں نے اپنے ربّ سے تعلق کو ختم کر دیا۔ قرآن جو ہدایت اور رہنمائی کی کتاب ہے اور ہر دور میں اس کتاب سے رہنمائی حاصل کی جاسکتی ہے ۔ اس نسخہ کیمیا کو ہم نے اپنی اوطاقوں میں سجا کر رکھا ہوا ہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلمان آج وہی جوش جذبہ اور ولولہ پیدا کریں جو میدان بدر میں تھا تو باطل کی تمام قوتیں آج مسلمانوں کے سامنے سرنگوں ہوجائیں گی اور دنیا کی کوئی طاقت اور قوت انہیں شکست فاش نہیں دے سکے گی۔ دنیا کی تمام ایٹمی قوت، اسلحہ، جنگی سازوسامان لاؤ لشکر، میزائل ٹیکنالوجی، وائرس ہتھیار سے لیس ہے ۔ دنیا میں آج جنگ لڑنے کے قاعدے اور قوائد بھی تبدیل ہوچکے ہیں۔ طاقت کی اس دوڑ اور کھیل نے ہمیں خود ہی اپنا دشمن بنا دیا ہے ۔ دنیا کو امن اسلحہ گولہ بارود سے نہیں بلکہ اسلام کے عادلانہ نظام سے ہی حاصل ہوسکتا ہے ۔ امت کے حکمراں آج اپنے ایمانی جذبات کی ترجمانی کریں اور ظلم اور طاغوت کے نظام کے خلاف کھڑے ہوجائیں تو اللہ تعالیٰ کی نصرت و مدد آج بھی نازل ہوسکتی ہے ۔