یوکرین کے بحران نے عالمی معیشت کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ اقوام متحدہ کی کانفرنس برائے تجارت اور ترقی نے عالمی جی ڈی پی کی شرح نمو 3.6 فیصد سے کم کر کے 2.6 فیصد کر دی ہے۔ آئی ایم ایف بھی رواں سال 19 اپریل کو جاری ہونے والے اپنے ورلڈ اکنامک آؤٹ لک میں رواں سال عالمی جی ڈی پی کی نمو کے تخمینے پر نظر ثانی کرنے کے لیے تیار ہے۔ برطانیہ کے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اکنامک اینڈ سوشل ریسرچ کا تخمینہ ہے کہ توانائی اور خوراک کی قیمتوں میں تیزی سے اضافہ 2023 تک عالمی جی ڈی پی میں 01 ٹریلین ڈالر یا 01 فیصد پوائنٹ کمی کا موجب بنے گا اور رواں سال عالمی افراط زر کی شرح میں 3.0 فیصد پوائنٹس اور آئندہ برس 2.0 فیصد پوائنٹس کا اضافہ ہو گا۔ معاشی گراوٹ کے تناظر میں یوکرین سب سے زیادہ متاثر ہونے والا ملک ہے،3 اپریل کو ملک کی وزارت اقتصادیات کے مطابق اس سال جی ڈی پی میں 50 فیصد کمی کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔اسی طرح روسی معیشت کو بھی شدید دھچکا لگے گا۔ روس کے مرکزی بینک نے 2022 کے جی ڈی پی میں 8 فیصد کمی کا تخمینہ لگایا ہے۔
امریکہ میں فیڈرل ریزرو نے پہلے ہی اس سال کے لیے امریکی جی ڈی پی کی شرح نمو کا تخمینہ 2.8 فیصد تک کم کر دیا ہے۔ مارچ میں امریکی برآمدات اور درآمدات ایک سال پہلے کے مقابلے میں بالترتیب 3.4 فیصد اور 0.6 فیصد کم رہی ہیں۔ امریکی افراط زر کی شرح، جو پہلے ہی 40 سال کی بلند ترین سطح پر ہے،مزید بڑھتی رہے گی۔اسی طرح یورپ بھی ترقی کی شرح میں بڑی کمی دیکھے گا۔تاہم، سب سے تشویش ناک امر ابھرتی ہوئی اور ترقی پذیر معیشتوں، خاص طور پر انتہائی کم آمدنی والے اور کم ترقی یافتہ ممالک میں جنم لیتا ایک گہرا بحران ہے۔ یہ ممالک ابھی تک کووڈ۔19 کیشدید اثرات سے باہر نہیں نکل سکے ہیں، جس نے 100 ملین یا اس سے زائد لوگوں کو غربت میں دوبارہ دھکیل دیا ہے اور اب انہیں ایک نئے بحران کا شکار ہونا ہے۔
سب سے بڑا خطرہ کم آمدنی والے ترقی پذیر ممالک میں ممکنہ خوراک کے بحران سے نمٹنا ہے۔یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ 2021 میں بھی وبائی صورتحال اور دیگر عوامل کی وجہ سے عالمی خوراک کی قیمتوں میں 40 فیصد اضافہ ہوا اور اب یوکرین بحران کے نتیجے میں اشیائے خور و نوش کی قیمتیں ایک مرتبہ پھر انتہائی تیزی سے مزید بڑھ رہی ہیں۔ابھی حال ہی میں8 اپریل کو اقوام متحدہ کی فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن کا مارچ 2022 کے لیے شائع کردہ ”دی ورلڈ فوڈ پرائس انڈیکس” 159.3 تک پہنچ چکا ہے، جو 1990 میں یہ انڈیکس متعارف کروائے جانے کے بعد سے بلند ترین سطح ہے۔ دسمبر 2021 سے اس میں 12.6 فیصد اضافہ ہوا، اناج میں 17.1 فیصد اور تیل کے بیجوں میں 23.2 فیصد کا اضافہ ہوا. یہ بات قبل ذکر ہے کہ روس اور یوکرین کا مشترکہ طور پر عالمی اناج کی برآمدات میں تناسب 40 فیصد ہے، جس میں گندم کی عالمی رسد کا ایک تہائی حصہ بھی شامل ہے۔
اقوام متحدہ کی فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن کے مطابق دنیا کے 35 فیصد لوگ گندم کا آٹا کھاتے ہیں اور 50 ممالک کا کم از کم 30 فیصد درآمدی انحصار روس اور یوکرین پر ہے۔ اس صورتحال کا ادراک کرتے ہوئے دیگر ممالک کی طرح چین نے بھی لازمی اقدامات اپنائے ہیں کیونکہ ایک ارب چالیس کروڑ لوگوں کی خوراک کی ضروریات کو پورا کرنا ہر گز کوئی آسان کام نہیں ہے۔ چین کے مرکزی اناج اور مقامی اناج کے ذخائر، اصلاحات اور کھلے پن کے آغاز کے بعد سے ایک دوسرے کی تکمیل کر رہے ہیں، جو فوڈ مارکیٹ کو مستحکم کرنے میں کلیدی عنصر ہیں۔ رواں سال کے آغاز سے، چین میں خوراک کی قیمتیں وبائی صورتحال، جنوبی امریکہ میں خشک سالی اور روس۔یوکرین تنازعہ کی وجہ سے بڑھتے ہوئے دباؤ کا سامنا کر رہی ہیں۔تاہم چینی حکومت نے عوام کو ہر ممکن ریلیف دینے کی خاطر موئثر حکمت عملی اپنائی ہے اور ملک میں اناج کی مستحکم پیداوار میں اضافے کو یقینی بناتے ہوئے شہریوں کی اناج کی طلب کو پورا کیا جا رہا ہے اور ملکی سطح پر خوراک کی قیمتوں کو مستحکم رکھا گیا ہے۔
حال ہی میں چین کے قومی شماریات بیورو نے بتایا کہ ملک میں خوراک کی قیمتوں میں مارچ میں سال بہ سال 1.5 فیصد کی کمی واقع ہوئی، اس کے برعکس عالمی سطح پر خوراک کی قیمتوں میں 30 فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا۔ چینی حکام بخوبی آگاہ ہیں کہ پے درپے بمپر فصلوں، اناج کے وافر ذخائر اور ضمانت شدہ اناج کی فراہمی کے باوجود، چین کی اناج کی طلب اور رسد کے درمیان توازن تبدیل نہیں ہوا ہے۔ کچھ زرعی مصنوعات جیسے سویابین اور تیل کے بیجوں کی شدید قلت ملک کی غذائی تحفظ کے لیے ممکنہ خطرہ ہے۔ اسی باعث چین کی کوشش ہے کہ بین الاقوامی ماحول میں غیر یقینی صورتحال سے نمٹنے کے لیے اناج کی پیداوار اور اہم زرعی مصنوعات کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے ہرممکن کوشش کی جائے۔