بہت عالی شان ہے ہمارا رب ،حقیقت یہ ہے کہ بندے اپنے رب کو پہچانتے ہی نہیں۔ ہمارا رب وہ ہے جس نے اتنی بے شمار مخلوقات میں سے ‘انسان’ یعنی حضرت آدم علیہ السلام کو اپنا نائب بنایا اورزمین کی خلافت کا منصب عطا کیا، باوجود اس کے کہ فرشتوں جیسی مقدس ہستیاں موجود تھیں جو ہر وقت عبادت میں لگی رہتی تھیں، وہ کوئی نافرمانی کر ہی نہیں سکتی تھیں۔ رب العالمین نے انسان پر اعتماد کرتے ہوئے اسے اپنے خلیفہ بنایا حالانکہ فرشتوں کی رائے میں وہ اس منصب کے معیار پر پورا نہیں اتر رہاتھا، لیکن کچھ تو ایسا تھا انسان میں جو صرف رب العالمین کو نظر آیا وہ جوہر فرشتوں کی نگاہ سے اوجھل تھا۔ دوسری طرف ابلیس بھی موجود تھا جو انسان کو اس منصب کے لائق نہیں گردانتا تھا بلکہ اپنی بڑائی کے گھمنڈ میں، حسد کے سبب، انسان کو سیدھی راہ سے بہکانے میں لگا ہوا تھا۔
قرآن پاک میں ہے: “پھر شیطان نے ان کے دل میں وسوسہ ڈالا، کہنے لگا: اے آدم، کیا میں تمہیں ایک ایسا درخت بتاؤں جس سے جاودانی زندگی اور وہ بادشاہت حاصل ہوجاتی ہے جو کبھی پرانی نہیں پڑتی” سورہ طہ’،آیت120.
مسلسل بہکاتے ہوئے وہ انسان کو ممنوعہ پھل کھلانے میں کامیاب ہوگیا جس کی وجہ سے، ہمارے ماں باپ حضرت آدم و حوا علیھم اجمعین کو جنت سے نکال دیا گیا۔ گھر سے بے گھر کروادیا لیکن پھر انسان نے ایک ایسا کام کیا جو رہتی دنیا تک مثال بن گیا، وہ اپنی خطا پہ شرمسار ہوگیا !
وہ جو مشت خاک تھا، اپنی حیثیت پہچانتا تھا، یہ کیسا وقت آن پڑا تھا کہ ارض و سما کے بادشاہ کے عالی شان دربار میں فرشتوں کے سامنے شرمسار کھڑا تھا اور اسے اپنی خطا پر معافی مانگنے کے لئے الفاظ بھی نہ سوجھ رہے تھے، لیکن وہ رب تو دلوں کے بھید جانتا ہے، اسے تو اپنے بندے کی حالت کی خبر تھی نا، پس اس عالی شان بادشاہ نے کمال رحمت سے وہ الفاظ القاء کردئیے جن سے وہ معافی مانگنے کے قابل ہوگیا۔ کیسا رحمان آقا ہے نا ! توبہ کرنا بھی سکھاتا ہے اور معافی بھی دیتا ہے! یہ توبہ استغفار ہی بندگی کا جوہر ہے، یہ مالک اور بندے کا آپس کا رابطہ ہے۔ یہ وہ تعلق ہے جسے کسی اور چیز کی ضرورت ہی نہیں۔
صرف احساسِ ندامت، اک سجدہ اور چشمِ تر
اے خدا کتنا آساں ہے منانا تجھ کو !
لمحہ فکریہ ہے کہ ہم اس زندگی میں ایک اعلیٰ عہدے پہ فائز ہیں کہ ہمیں دنیا کے نظام کو رب العالمین کے حکم کے مطابق چلانا ہے، لیکن ہم تو پل پل کسی بہکاوے میں الجھتے، کسی جال میں پھنستے جاتے ہیں۔ شیطان ہے تو بڑا مکار دشمن لیکن وہ دوست کے بھیس میں آتا ہے، کبھی ترقی کا لالچ دے کر ، کبھی غفلت میں ڈال کر انسان کو اس کے اصل کام سے روک دیتا ہے۔ کبھی کسی دنیاوی طاقت سے ڈراتا ہے لیکن اصل ڈر اور اصل در بس رب کا ہے۔ گناہوں کے سبب وہ در بند نہ ہو ورنہ دنیا میں کہیں پناہ نہیں ملتی۔
رب ِکریم نے موت تک توبہ کا دروازہ کھلا رکھا ہے۔ جب انسان کو اپنی غلطی نظر آجائےتو وہ اسے تسلیم کرکے رب کے سامنے جھک جائے تاکہ اسے خود بھی سکون مل سکے۔ معافی مانگ لینا بڑے انسانوں کا شیوہ ہے۔ یہی شان ِبندگی ہے۔ کبھی ہم نے آنکھیں بند کرکے اپنی گزشتہ زندگی کے بارے میں سوچا کہ ہم سے کیا خطائیں ہوئیں، ہم نے کس کس کا دل دکھایا، کس کا حق مارا۔ ابھی موقع ہے کہ تلافی کرلیں۔ خدا کرے کہ اس رمضان میں ہم اپنے گناہ بخشوانے میں کامیاب ہوسکیں۔ بحیثیت قوم گزشتہ پچھتر سالوں سے ہم جن آزمائشوں میں مبتلا ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے پاکستان کلمہ طیبہ کی بنیاد پہ حاصل کیا تھا اور اپنے رب سے وعدہ کیا تھا کہ اسے قرآن وسنت کے مطابق چلائیں گے، ابھی موقع ہے کہ ہم اپنے رب سے کئے وعدے کو پورا کرنے میں اپنا کردار ادا کریں تاکہ اس کی رحمتوں کے حق دار بن سکیں۔
رب تو چاہئیے
تیری رضا چاہئیے
نہ کوئی میرا ترے سوا ہے
نہ تیرے سوا چاہئیے !