موجودہ سیاسی منظر نامے پر روشنی ڈالیں تو اس ضمن میں سب سے احمقانہ کردار عوام کا ہے پاکستان کے اہل سیاست اور صاحب اقتدار گروہ نے اپنے رویے سے ثابت کیا ہے کہ عوام ان کی نظر میں قطعی ہلکی اور حقیر ہے۔ انہیں کچھ فکر نہیں کہ ان کی انا اور اقتدار ہوس کے نتیجے میں عوام کا کتنا نقصان ہوتا ہے۔ قوم کا مستقبل کتنا تاریک ہوتا ہے۔ عوام خود اپنا آپ بخوشی ایسی قیادتوں کے حوالے کرتی آئی ہے جو بدانتظام، بے تدبیر، قانون شکن قیادت ثابت ہوتیں ہیں جو اقتدار کی چاہ قوم کے معاشی سماجی مسائل حل کرنے کے لئے نہیں بلکہ اس لیے رکھتے ہیں کہ حصول زر اور سماج میں مرتبہ بلند ہو۔ میرے وطن کی اکثر سیاسی قیادتوں نے اپنی پارٹی میں جمہوریت نہیں رکھی اقربا پروری اور خوشامدیت کو مدنظر رکھا تو پارٹی افراد کی وفاداریاں تبدیل ہونا اک عام بات ہوگئی۔ قوم احمق ہونے کے ساتھ بے بس ہے سو ہے خود اپنی گناہ گار بھی ہے۔
میری قوم کی بصیرت کم نگاہی اتنی ہے کہ سوشل میڈیا الیکڑانک میڈیا کسی شخصیت کو ان کے سامنے سحر انگیز بناتا ہے کسی شخصیت کو کوتاہ تو یہ عقل استعمال کے بجائے یونہی قبول لیتے ہیں پسندیدگی کا معیار لوگوں کی اکثریت و بہتات کے ذریعے کرتے ہیں قرآن کا یہ معیار نہیں کہ اکثریت جسے پسند کرے وہ شخصیت اللہ کے ہاں بھی وہی ویلیو رکھتی ہو۔ میں اپنی قوم کو چند مخلصانہ مشورے دوں گی کہ جس کی شخصیت آپ کو پسند ہے آپ اس کے ساتھ فوٹو بنوائیں فریم کروا کر گھر میں لٹکائیں اس شخصیت سے آٹو گراف لیں اور اگر سحر اس کی چرب زبانی کا ہو تو اسے بطور موٹیویشنل اسپیکر سنیں۔ لیکن ملک کی بقا و سالمیت خطرے میں ہو کرنسی گرانی کتنی ہی ہو ملک کا معاشی دیوالیہ ہوجائے لیکن حاکم وہی رہے اس بات پر بضد نہ رہیں اس ضد نے پورے ملک کو ہیجان میں مبتلا کیا ہے۔ وطن اور خود کو کسی کی ذاتی تجربہ گاہ نہ بنائیں۔ عمران حکومت نے ملک میں جو انتشار پھیلایا ہے۔ جو کچھ نئی داغ بیل ڈالیں ہیں وہ یہ کہ ان کی کابینہ کے افراد جعلی خبریں رپورٹیں جاری کرتی رہے صرف رپورٹس سے ثابت ہوتا رہا پاکستان سب سے سستا ملک ہے۔ معاشیات کا ہر اصول اٹھا رکھا گیا عقل سے ماورائی لاجک پیش کی جاتی رہیں حیران ہوں معاش کی دلدل میں پسی عوام کی دماغی حالت میں بدستور سدھار نہ آیا۔
لیڈر کی محبت اور سحر میں مبتلا قوم دیکھی نہ سنی لیکن حکومت کے ساتھ ازحد مخلص سوشل میڈیا گروپ رہا جو سیاسی حریفوں پر رکیک حملے کرتے رہے حکومت عمران نے صرف سوشل میڈیا فائٹ اچھی کی یہاں خود کو منوایا۔ شرافت مہذب زبان ان کے عہد میں عنقا ہوئی شاید کبھی بولی جائے ایوان حکومت کے اکھاڑے تو کبھی کبھار ہی سامنے آتے تھے لیکن سوشل میڈیا ہر وقت جنگ و جدال کا منظر پیش کرتا رہا اور پاکستان کا امیج دنیا بھر میں خراب ہوتا رہا۔ مابدولت بذات خود عمران نیازی کو بے ربط تو مانتے لیکن بظاہر قوم کے لیے اخلاص رکھنے والا بمقابلہ پی ڈی ایم کرپشن فری حاکم سمجھتے تھے قوم کی اکثریت نے انہیں نجات دہندہ سمجھا تھا لیکن جتنی بڑی امید اس کے ٹوٹنے کا اتنا بڑا غم تو عمران حکومت کی ناکامی بحیثیت قوم ہم نے خوب محسوس کی۔
عمران حکومت کی ناکامی کی بڑی وجہ ان کی اپنی شخصیت کے بہت سے کمزور پہلو بھی تھے۔ مردم شناس نہ ہونا، چرب زبانی، اپنے خول میں بند سیدھے منہ بات کرنے کا روادار نہ ہونا، سیاسی بصیرت جہاندیگی کی شدید قلت ہونا لہذا صرف ان کی ذات کے کرپٹ نہ ہونے سے قوم کو کوئی فائدہ نہ ملا قوم سے اخلاص کا تقاضہ تھا ابتداء سے ہی لچک رکھتے تو 25 سالہ جمع پونجی مختصر عرصے میں نہ لٹتی۔ امریکہ کے کئی اک پلان ہماری سیاسی قیادتوں کے ذریعے پورے ہوئے ہیں خود عمران کے ذریعے بھی محسن کے آخری سفر کو اہمیت نہیں دی گئی کس کی رضا پیش نظر تھی درجنوں قانون سازیاں کس کی ایماء پر کی گئیں آسیہ ملعونہ راتوں رات رہائی کس کی رضا مطوب تھی۔ فرانس سے سفارتی تعلقات میں یورپی یونین کا خوف تو بہت محسوس ہوا لیکن خط نے ہر خوف ختم کردیا عوام کو بھی بہادر بننے اور آزاد خومختار ہونے کا احساس دلایا گیا۔ خط اگر امریکی سازش ہے تو ناموس رسالت سازشوں سے چھوٹی ہے۔ اس سازش پر بھی دکھی ہو لیتے اگر پی ٹی آئی حکومت کا نفع ہوتا ہمیں غم کسی کے آنے جانے کا نہیں اس بات کا ہے کہ اک پوری قوم ناامیدی یاس میں مبتلا ہوئی موجودہ واقعے میں خان صاحب کا کردار اپنی نالائق ٹیم کے ساتھ سہولت کار کا ہوا نا کہ انہوں نے پی ڈی ایم کو موقع دیا کہ وہ اک بار پھر ملک کو داؤ پر لگائیں ملکی انتشار میں دونوں اک دوجے کے مددگار ثابت ہوئے ہیں۔
اصل مجرم قوم ہی ہے جس کا نہ ایمان ہے نہ اخلاق کا کوئی معیار قوم کو سمجھنا چاہیے کہ کیا ادارے آپس میں متصادم کروانا سب کچھ کر گزرنا ملک ٹوٹے یا نظام پلٹے پرواہ نہ کرنا یہ سب آپ کی محبت اور اخلاص میں نہیں ہوتا یہ اقتدار کی محبت میں ہوتا ہے۔ قوم سطحی باتوں بے بنیاد نعروں کو حقیقت سمجھ بیٹھے تو ایسے ہی لیڈر مقدر ہیں۔ 74 سال گزرنے کے باوجود ہم اپنا حقیقی رہبر نہیں ڈھونڈ سکے۔ مسلمانوں کے حاکم کا معیار ہمیں قرآن دیتا ہے وہ جس کے آنے سےامن اور خوشحالی آتی ہے۔ لیکن امن خوشحالی لائے بغیر عمران خان دور اقتدار اختتام پذیر ہوگیا یہاں آخری امیج بھی برا ہی گیا حکومت اور سپورٹرز عدلیہ کے خلاف بولتے رہے اگر خان صاحب گریس فلی جاتے تو اک اچھے اثر سے یاد رکھے جاتے آنے والوں کے اندر بھی قوم کا اخلاص موجود نہیں ہے چور لٹیروں کا منظم گروہ ہے عوامی خدمت اب بھی تقاریر کے پیچھے ہی رہے گی عوامی چیخوں میں اضافہ ہی ہوگا۔
اعلی افواج، اعلی عدلیہ، اہل صحافت و دانشور اساتذہ اور سول ملازمین اسٹیبلشمنٹ کے ان مضبوط اداروں سے درخواست ہے اپنی ذمہ داریوں کو ادا کریں چہرے نہیں نظام بدلیں اور آخری ذمہ داری عوام کی بھی ہے پسندیدگی چاہت سے صرف نظر کرکے تدبر سے کام لے کر اپنے مستقبل کا فیصلہ کریں۔ سوچ بدلیں نظام بدلیں تاکہ ملک اندرونی مسائل سے نپٹ کر ترقی کی راہ پر گامزن ہو اور ان مقاصد کی طرف پیش قدمی کرے جن مقاصد کی خاطر یہ ملک بنا تھا۔