ہر سال ماہِ مقدس رمضان المبارک کی آمد پر اشیائے خورونوش کی قیمتیں بلند ترین سطح پر پہنچ جاتی ہیں ، جن پر حکومت بھی اگر کوئی ریلیف دے تو پھر بھی یہ عام حالات سے مہنگی ہی رہتی ہیں۔ افسوس کہ امسال بھی ایسا ہی دیکھنے میں آیا ہے اورخود ساختہ اضافے کے باعث انتہائی بنیادی ضرورت کی اشیاءکی قیمتیں یکدم آسمان کو چھونے لگی ہیں، سبزیوں کے دام بڑھا دیے گئے جبکہ پھلوں کی قیمت میں بھی اضافہ کیا گیا۔ دنیا بھر کے مہذب ممالک میں ان خصوصی دنوں اور تہواروں کے موقع پر اشیائے ضرور یہ کی قیمتیں کم کر دی جاتی ہے جب کہ وطنِ عزیز میں الٹی گنگابہتی ہے۔ ہر سال ہی رمضان المبارک میں گرانی اپنے عروج پر پہنچی ہوتی ہے۔ دودھ، آٹا، گھی، تیل،سبزیاں وغیرہ سب مہنگے ہو جاتے ہیں اور پھل تو غریبوں کے لیے شجر ممنوعہ اس لیے ہو جاتے ہیں کہ وہ ان کی خریداری کے متحمل نہیں ہو سکتے۔وفاقی اور صوبائی حکومتیں فوری طور پر نا جائز منافع خوروں کے خلاف کاروائی کرنے کے لیے اقدامات کا اعلان کریں اور منافع خور وں پر صرف جرمانہ عائد کرنے کے بجائے انہیں سخت ترین سزائیں بھی دیں تاکہ خود ساختہ مہنگائی کا سلسلہ رک سکے۔ رمضان کے مہینے میں اللہ نے ہر مسلمان بالغ پر روزے کو فرض کیا ہے، اسے گناہوں سے مغفرت، ثواب و رضا، دعاؤں کی قبولیت اور اللہ سے تقرب کا مہینہ قرار دیا ہے۔
قرآن میں اللہ کا ارشاد ہے۔ ترجمہ: رمضان کے مہینے میں قرآن نازل کیا گیا جو لوگوں کیلئے ہدایت اور فرقان کی دلیل ہے، جو شخص اس ماہ کو پائے، وہ اس میں روزے رکھے اور جو بیمار یا مسافر ہو تو وہ دوسرے دنوں میں (قضا) کرے، اللہ تعالیٰ تمھارے ساتھ آسانی چاہتا ہے، وہ تمہارے ساتھ تنگی نہیں چاہتا۔ مدت کو مکمل کرو، اللہ کی ہدایت کے مطابق اللہ کی بڑائی بیان کرو، تاکہ تم شکر گزار بن سکو۔ اور جب میرے بندے مجھے پکارتے ہیں تو میں قریب ہوتا ہوں اور پکارنے والے کی دعا کو قبول کرتا ہوں۔ تو انھیں بھی چاہیے کہ وہ میرے احکامات کو قبول کریں، مجھ پر ایمان رکھیں، تاکہ وہ صحیح راہ پر چل سکیں۔ افسوس ہم رمضان کی برکتیں سمیٹنے کی بجائے رمضان میں عوام کو لُوٹنے میں مصروف ہیں رمضان ہمیں بھوک برداشت کر کے غریب پروری کا درس دیتا ہے مگر ہم اس کے بر عکس رمضان میں غریب کو مارنے کی بھرپور کوشش کررہے ہیں۔ جبکہ بہت سے غیر اسلامی ممالک میں رمضان کی مناسبت سے سیل لگائی جاتی ہیں جہاں پر مسلمانوں کو ارزاں نرخوں پر اشیائے خوردونوش دستیاب ہوتی ہیں جہاں پر امیر و غریب دونوں اس بابرکت مہینے کی برکتوں و رحمتوں سے استفادہ حاصل کرتے ہیں۔ خصوصی رمضان ڈسکاؤنٹ پیکیج متعارف کروائے جاتے ہیں۔ مسلم بھائیوں کے لئے بڑے بڑے افطار۔ دستر اخوان سجائے جاتے ہیں۔لیکن بدقسمتی سے عالم اسلام کی واحد ایٹمی قوت اور اسلام کے نام پر معرض وجود میں آنے والی مملکت خداداد پاکستان میں رمضان جیسے با برکت اور رحمت کے مہینے کو باعث زحمت بنا دیا جاتا ہے۔
پاکستان جو ماہ رمضان المبارک میں اسلام کے نام وجود میں آیا اور قرآن وسنت کے عملی نظام کے نفاذ کا اللہ سے عہد کیا گیا تھا۔ لیکن 74 سال کا طویل عرصہ گزر جانے کے باوجود ہم نے اس عہد کی پاسداری نہیں کی۔ رمضان المبارک کی آمد سے قبل ہی ذخیرہ اندوز متحرک ہوجاتے ہیں۔ ملک میں مہنگائی کا طوفان برپا ہوجاتا ہے۔ روز مرہ کی اشیاء کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگتی ہیں۔ حکومت جو بھی ہو وہ صرف رمضان پیکیج کا اعلان کر کے یوٹیلیٹی اسٹور ز میں چند اشیاء پر سبسڈی دے کر اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہو جاتی ہے ۔ہر رمضان میں انتظامیہ عوام کو مہنگائی کے سیلاب سے بچانے کے دعوے تو کرتی ہے مگر گراں فروشی اور مہنگائی پھر بھی کنٹرول سے باہر ہوجاتی ہے۔ دکاندار، تاجر اور خوردہ فروش شہریوں کو دونوں ہاتھوں سے لوٹتے ہیں اور حکومت مہنگائی کے جن کو قابو نہیں کرپاتی۔ لہٰذا ماضی کی طرح تاریخ اس بار بھی مہنگائی اور بے روزگاری کے سیلاب کے سامنے بے بسی کی تصویر بنی نظر آتی ہے ۔ وفاقی اور صوبائی حکومتیں فوری طور پر نا جائز منافع خوروں کے خلاف کاروائی کرنے کے لئے اقدامات کا اعلان کریں اور منافع خور وں پر جرمانہ عائد کرنے کے بجائے سخت ترین سزاؤں کے اقدامات کئے جائیں۔ اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ ضلعی حکومت کے نمائندوں کو صحیح معنوں میں عوام کا خادم بنایا جائے اور ان سے مہنگائی کے خاتمے کے لئے مرکزی کردار اداکروایا جائے۔
ضروری ہے کہ حکومتی عمل داری یقینی بنائی جائے،کیوں کہ اس کے بغیر اب چارہ بھی نہیں۔ملک بھر میں مہنگائی کے عفریت پر قابو پانے کے لئے نہ صرف راست اقدامات کئے جائیں بلکہ رمضان المبارک میں عوام کو گرانی سے بچانے کا مؤثر بندوبست بھی کیا جائے۔ذمہ داران سرکاری نرخ نامے کے مطابق اشیاء ضروریہ کی فروخت ممکن بنائیں،گراں فروشوں کے خلاف کڑی کارروائیاں کی جائیں۔بصورت دیگر مہنگائی کا سونامی غریب عوام کی کمر توڑ کر رکھ دے گا کیونکہ منافع خوروں اور ذخیرہ اندوزوں نے قیمتوں میں من مانا اضافہ کیا ہے اور ساتھ ہی مصنوعی قلت بھی پیدا کر دی ہے۔لہٰذا حکومت کو ذخیرہ اندوزوں کے خلاف سخت کارروائی کرنے کے ساتھ ساتھ منافع خوروں کے خلاف بھی سخت کاروائی کرنی چاہئے۔جب رمضان آتا ہے تو اسے زیادہ سے زیادہ کمائی اور منافع کا مہینہ سمجھتے ہوئے ہر چیز کی قیمتوں میں کئی گنا اضافہ کر دیا جاتا ہے اور غریب آدمی اس مہینے میں رحمتوں کو سمیٹنے کے بجائے اپنا نان نفقہ پورا کرنے کی فکر میں ہی مبتلا رہتا ہے ۔ ماہ صیام تو نیکیاں کمانے کامہینہ ہے، مگر وطن عزیز میں سفید پوش طبقے کی مجبوریوں کا خوب فائدہ اٹھایا جا تا ہے اور ان منافع خوروں ، ذخیرہ اندوزوں سے پوچھ گچھ کرنے والا کوئی نہیں ؟