آج دسواں روزہ تھا میں گھر سے افطار کے لیۓ کچھ سامان خریدنے نکلا۔
محلے کے مشہور پکوڑے والے چاچا کا ٹھیلا پکوڑوں سموسوں سے بھرا ہوا تھا اور رش اتنا کہ پاؤں رکھنے کو جگہ نہیں تھی۔ میں نے سوچا بڑی دکان سےخرید لیتا ہوں شیشوں سے بنی چمکتی دکان کے کاٶنٹر سے ٹوکن لے کر لاٸن میں کھڑا تھا میرے آگے دس سے بارہ سال کا بچہ میلے کچیلے کپڑوں میں کھڑا اپنی باری کا انتظار کر رہا تھا، بچے نے کاٶنٹر پر پچاس کا مڑا تڑا نوٹ رکھا اور کہا آلو والے پکوڑے دے دو۔ دکان دار نے نوٹ کو غور سے دیکھا اور کہا۔ یہ نوٹ نہیں چلےگا پھٹا ہوا ہے۔
اب میں کاؤنٹر پر کھڑا تھا اور گہری سوچ میں گم تھا۔ کیا ہوا کچھ نہیں خریدنا تو دوسروں کو تو لینے دو ،دکان دار کی آواز پر میں کاؤنٹر سے ہٹ گیا بغیر کچھ خریدے۔ اب بچہ اپنی چھوٹی بہن کے ساتھ کھڑا نوٹ کو ہاتھ کی مدد سے ٹھیک کر رہا تھا اور ساتھ ہی بہن کو تسلی دے رہا تھا میں کہے بھی رہا ہوں چاچا سے لے لیتے ہیں پکوڑے مگر تجھے تو بڑی دکان سے ہی لینے تھے یہ بڑی دکان والے بڑے غریب ہوتے ہیں ہمارے پچاس روپے سے انکا کروڑوں کا نقصان ہو جائے گا۔
بچوں کے پیچھے پیچھے میں بھی چاچا کے ٹھیلے پر پہنچ گیا بچے نے پچاس روپے چاچا کو دیۓ چاچا آلو کے پکوڑے دے دو۔ نوٹ کو بغیر دیکھے چاچا نے تھیلی میں آلو اور پیاز کے پکوڑے ڈال دٸیے اور بیس روپے واپس کر دیۓ۔ بچہ حیرانی سے دیکھنے لگا چاچا میں نے پچاس روپے دیۓ ہیں تم زیادہ پیسے کیوں دے رہے ہو۔ چاچا تیزی سے تیل کی بھرے کڑھائی میں پکوڑے تلنے لگے۔ ارے جب اتنی دیر سے آؤگے تو زیادہ ہی ملیں گے اب ٹھیا بند کرنے کا وقت ہے بلکہ تم اسی وقت آیا کرو بیٹا۔ میں نے کلائی پر بندھی گھڑی کو دیکھا تو پورے پینتالیس منٹ باقی تھے روزے میں۔
بچے کے لیۓ وہ بیس روپے کا نوٹ بہت بڑی رقم تھی اس نے بہن کے ہاتھ میں پکوڑوں کی تھیلی پکڑائی اور نوٹ کی تہ بنا کر حفاظت سے جیب میں رکھ لیۓ۔ اب میں نے چاچا کو پیسے دیۓ اور سوال کیا چاچا آپ نے نوٹ چیک نہیں کیا وہ نوٹ پھٹا ہوا تھا۔ چاچا مسکراتے ہوئے کہنے لگے بیٹا نوٹ پھٹا ہوا ہے میں جانتا ہوں پر یہ پچاس روپے اس بچے کی پورے دن کی دیہاڑی ہے اور یہ تھوڑے سے پکوڑے ان کے پورے گھر کی افطاری بس اسی لیۓ اللہ کی رضا کی خاطر میں یہ نیکی کرتا ہوں۔ میں نے کہا اچھا تو پھر آپ نے بیس روپے واپس کیوں دیۓ پکوڑے تو پچاس روپے سے زیادہ کے تھے۔
جو کچھ بھی میرے پاس ہے میں بھی تو اُس کے لاٸق نہیں ہوں رازق نے مجھے اتنا رزق دیا ہے ضروری تو نہیں سب میرے لیۓ ہی ہو اس میں غریبوں کا بھی حق ہے چاچا نے بقایا پیسے مجھے دیۓ اور کہا جو کچھ تمھارے پاس ہے وہ اس جہاں کے لیۓ ہے لیکن اگر تم سمجھدار ہوتو اللہ سے تجارت کرو جس میں کوٸ نقصان نہیں بلکہ دنیا و آخرت دونوں میں تم ہی امیر رہو گے۔
میں نے بقایا پیسے چاچا کو دیۓ اور کہا تو پھر آج سے میں بھی تجارت کروں گا آپ ان پیسوں سے کسی مستحق کو افطار کرادینا۔چاچا نے کہا ! اللہ قبول کرے، اللہ اسے دگنا کر دے گا۔