ہمارا سسٹم ایک مرتبہ پھر وینٹی لیٹر پر آگیا ہے۔ ملک میں اس وقت جمہوریت کے نام پر کیا ہورہا ہے اور کیوں ہورہا ہے اس کو سمجھنے کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں ہے۔ عمران کے خلاف امریکی سازش ہوئی ہے یا نہیں۔ اپوزیشن قیادت غدار ہے یا نہیں قوم پچھلے دو ہفتوں سے ان سوالات کا جواب ڈھونڈ رہی ہے اور جو ان سوالات کا جواب دے سکتے ہیں وہ اس وقت ” نیوٹرل” ہیں۔ سمجھنے کی بات یہ بھی ہے کہ جو کچھ عرصہ قبل تک ایک پیج پر تھے وہ اب ایک پیج پر کیوں نہیں رہے کیا اس میں بھی کوئی بیرونی سازش تھی ؟ یقیناؐ ایسا نہیں ہے۔ امریکا کے حوالے سے عمران خان کا موقف کوئی آج کا نہیں ہے۔ تحریک انصاف کا کپتان کبھی بھی امریکا کے لیے پسندیدہ شخص نہیں رہا ہے اور نہ ہی وزیر اعظم کا دورہ روس سپرپاور کو اتنا چبھا ہے کہ اس نے فوری فوری کپتان کی چھٹی کرانے کا فیصلہ کرلیا۔ ایک بات سب کو تسلیم کرنا ہوگی کہ گیم اندرونی ہی ہے ہاں یہ ضرور ہوسکتا ہے کہ کسی بیرونی طاقت کے لیے یہ گیم پسندیدہ ہو اور اس کے ذریعے اس کا کام آسان ہورہا ہو۔
ایک بات ذہن نشین کرلیں کہ جس شخص کے پاس “نہ ” کہنے کی جرات ہو وہ ہمیشہ لوگوں کی آنکھوں میں کھٹکتا رہتا ہے۔ یہ بات بھی سمجھ لیں کہ عمران کو ہٹانے کےلیے مہنگائی بالکل مسئلہ نہیں تھی اور نہ ہی بیڈ گورننس سے طاقتور حلقوں کو کوئی مسئلہ تھا۔ جب تک گردن ہاں کے لیے جھک رہی تھی سب ایک پیج پر تھا اور جہاں بات ناں تک پہنچی ایک پیج تو کیا پیج ہی موجود نہ رہا۔ ایک بااختیار نیب ، الیکٹرانک ووٹنگ مشین اور اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے سمیت کچھ تقرریوں پر بات نہ ماننا پی ٹی آئی کے کپتان کے لیے ڈراٶنا خواب ثابت ہوا اور پھر اس کی بساط لپیٹنے کا فیصلہ کرلیا گیا۔
الیکٹرانک ووٹنگ مشین کیوں لوگوں کے لیے اتنا بڑا مسئلہ بن گئی ہے اس میں سمجھداروں کے لیے بہت سے اشارے موجود ہیں۔ الیکٹرانک سسٹم کے ذریعے انتخابات کے عمل سے ملک ایک حقیقی جمہوریت کی طرف جاسکتا ہے اور ملک میں جمہوریت کو کنٹرول کرنے والوں کے لیے یہ بالکل سودمند نہیں ہے کیونکہ معاملات پھر ان کے ہاتھوں سے نکل جائیں گے اور انتخابات چرانے کا عمل اپنی موت آپ مرجائے گا۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا عمران خان کو ہٹانے کے بعد یہ سسٹم اتنی آسانی کے ساتھ کام کرتا رہے گا؟ شہباز شریف وزیر اعظم بن جائیں مولانا فضل الرحمن صدر مملکت ہوں بلاول بھٹو وزیر خارجہ بن جائیں گے اور ہمارے ملک کی کنٹرولڈ جمہوریت گزشتہ تین دہائیوں کی طرح چلتی رہے گی۔ اگر کوئی ایسا سوچ رہا ہے تو وہ غلطی پر ہے۔ یہ تو ابھی انجام کا آغاز ہوا ہے۔ گیم مکمل طور ہر آن ہے۔ ایک فیصلہ کن مرحلہ آگیا ہے جہاں ہم یا واقعی ایک حقیقی جمہوریت کی طرف بڑھیں گے یا پھر لنڈے کے دانشوروں، بہروپیے سیاستدانوں اور علما سو کے اتحادوں کے ذریعے ملک میں کنٹرولڈ جمہوریت کا کھیل جاری رکھیں گے اور اس بات کا فیصلہ عوام کو کرنا ہے کہ وہ کیسا پاکستان چاہتے ہیں۔ وہ کیا ایسا پاکستان چاہتے ہیں جہاں ڈیل کے ذریعے کل کے ملزم آج ملک کے حکمران بن جائیں یا پھر ایسا پاکستان چاہتے ہیں جہاں سزا اور جزا کا نظام ہو اور ہمارا کوئی سیاسی رہنما کسی کی ڈکٹیشن پر نہ چلے۔