عالمی اُفق پر قبضے کے خواب کو عملی جامہ پہنانے کیلئے امریکہ نے جو جنگ شروع کی تھی اس میں وہ آج اتنی بری طرح سے پھنس چکا ہے کہ اسے یوکرائن کی مدد کیلئے اپنی افواج بھجوانے سے دوٹوک انکارکرنا پڑا جس سے اب جوبائیڈن کیخلاف ایک نیا محاذ کھل چکا ہے۔ امریکہ نے اپنے تذویراتی مقاصد کی خاطریوکرائن کی لگ بھگ 4 کروڑ سے زائد آبادی کوتباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے کیونکہ ماسکو کی طرف سے کئے گئے حملے کے بعد لاکھوں مہاجرین محفوظ پناہ کی تلاش میں دربدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں ۔
قبل ازیں بھی اس حوالے سے تحریر کیا جا چکا ہے کہ افغانستان سے انخلاءکے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کو دیکھتے ہوئے جہاں امریکی انتظامیہ کی خارجہ پالیسی اور بالخصوص کابل سے متعلق حکمت عملی پر کئی سوالات اٹھ رہے ہیں وہیں ہر ملک اپنے تئیں بنائی پالیسیوں پر عمل پیرا ہونے کیلئے تگ و دو میں مصروف ہے جس سے علاقے میں نت نئے بحرانوں نے سر اٹھا لیاہے اور اب معاملات کنٹرول سے باہر ہو چکے ہیں اس کی بڑی وجہ یہی ہے کہ خطے کا کوئی بھی ملک امریکی ڈیمانڈ کو نہیں جان سکا اور نہ ہی یہ معلوم ہے کہ بدلے میں اسے کیا دیا جا رہاہے؟ ۔امریکہ، برطانیہ اور آسٹریلیا کے درمیان نئے سکیورٹی معاہدے”آکوس “ سے جنوب مشرقی ایشیاءمیں عالمی طاقت کے توازن میں ایک نئے باب کا اضافہ ہواکیونکہ اس کے تحت آسٹریلیا کو ایٹمی ایندھن سے لیس کم از کم 12 آب دوزیں بنانے اور انہیں سمندر میں تعینات کرنے کی ٹیکنالوجی فراہم کی جائے گی، درحقیقت ”آکوس“ معاہدہ انہی اقدامات کا حصہ ہے جس کے تحت واشنگٹن انڈو چائنا کو اپنا محور بنا چکا ہے۔”کواڈ “فورم میں موجود انڈو پیسیفک میں امریکہ کا سب سے طاقتور اور قریبی اتحادی جاپان ہے جس کے پاس ہر قسم کی ٹیکنالوجی حاصل کرنے اور اسے ترقی دینے کی غیر معمولی صلاحیت بھی موجود ہے لیکن اسے صرف اس لئے اس معاہدے میں شامل نہیں کیا گیاکہ ایٹم بم کے بھیانک سائے جاپانی رائے عامّہ کو اس معاہدے پر آمادہ نہیں کرسکیں گے حالانکہ آئین کے آرٹیکل 9 میں ترمیم کے بعد تو ایسا ممکن بھی تھا۔ دنیا ایک نئے بلاک کی سیاست اور کولڈ وار کی وجہ سے غلط سمت میں چل پڑی ہے۔
عراق ،شام کے بعد افغانستان ان دنوں سنگین انسانی بحران کے دہانے پر کھڑا ہے جس سے عالمی دہشت گردی مزید بڑھ رہی ہے۔اقوام عالم نے فلسطین اور کشمیر کے مسلمانوں کو مایوس کیاکیونکہ عالمی برادری نے حق خود ارادیت کی حمایت تو کی لیکن اس پر آج تک عمل نہ ہو سکا، مقام افسوس ہے کہ اسرائیل اور بھارت اب بڑی تیزی سے یہاں آبادی کا تناسب بدلنے کیلئے گھناﺅنی کارروائیوں میں مصروف عمل ہے جو کہ ایک جنگی جرم ہے۔ افغانستان میں نیٹو کی شروع کردہ جنگ میں شکست کی بڑی وجہ اس جنگ میں نیٹو کے بڑھتے ہوئے مالی اخراجات اور جانی نقصانات ہی تھے اور اب ماسکوحملے کے بعد پیوٹن کی جانب سے ملنے والی سنگین نتائج کی دھمکیوں کو بھانپ کر اقوام عالم بشمول عالمی طاقتیں اپنے اپنے مفادات کو پیش نظر رکھ کر اس کشیدگی کو ختم کرنے کی حکمت عملی بارے سنجیدگی سے غور کر رہی ہیں تاکہ یہ کہیں ایٹمی جنگ میں تبدیل نہ ہو جائیں۔
روس اور چین میں جاری عالمی حالات میں جس حکمت عملی پر عمل پیرا دکھائی دیتے ہیں اس سے مبصرین کا خیال ہے بلکہ اصرار ہے کہ یہ دونوں بڑی طاقتیں ایک نیا ورلڈ آرڈر نافذ کرنے جا رہے ہیں۔ اس کے امکانات قوی ہیں اور اگر نیا ورلڈ آرڈر نافذ کیا گیا تب کیا ہوگا؟واضح رہے کہ سال 2020ءمیں جب کووڈ19- نے د±نیا میں تباہی مچائی تھی اس دوران امریکی ڈاکٹر جینے پیج نے ایک دستاویز تیار کی تھی جس کا عنوان تھا۔ ”کووڈ اور نیو ورلڈ آرڈر۔“اس وقت امریکا کے سابق صدر ٹرمپ اوران کے ہم نوا چین کو کورونا وائرس پھیلانے کا الزام دے رہے تھے۔ سابق امریکی صدر کو چین سے یہ اعتراض تھا کہ امریکا کو بتایا گیا کہ ووہان شہر میں کوئی وائرس پھیلا ہے اس کی روک تھام کریں۔ ٹرمپ کا اعتراض تھا کہ چین نے یہ نہیں بتایا کہ یہ وائرس سانس کے ذریعہ پھیلتا ہے۔ اس حوالے سے امریکا کو اس وقت بڑا جانی اور مالی نقصان برداشت کرنا پڑا تھا۔ تب ڈاکٹر جینے پیج نے وبائی امراض کے پھیلنے کے خطرے کے پیش نظر نیو ورلڈ آرڈر کا نظریہ پیش کیا تھا کہ تمام ممالک متحد ہو کر وبائی امراض کی روک تھام کریں۔۔
حال ہی میں بل گیٹس نے انکشاف کیا ہے کہ ایک خطرناک وائرس خیال ہے کہ عنقریب دنیا پر حملہ آور ہونے والا ہے۔ اس لئے بل گیٹس نے پیشگی خبردار کر دیا ہے۔ اس کا سبب انہوں نے بتایا کہ آلودگی، یوکرین کی جاری جنگ اس ضمن میں ہونے والی دفاعی، سیاسی اور سفارت کاری کی پیش رفت کے تناظر میں مبصرین کا یہ دعویٰ کہ روس اور چین ایک نئے ورلڈ آرڈر کو تشکیل دے رہے ہیں اور د±نیا اس طرف بڑھتی دکھائی دیتی ہے۔
واضح رہے کہ روس یوکرین کی جنگ کے ذریعہ جو نتائج حاصل کرنا چاہتا تھا اس نے یہ نتائج حاصل کرلئے۔ مثلاً روس اپنی طاقت اور عالمی سطح پر اپنا کردار وضع کرنا چاہتا تھا۔ طاقت کا مظاہرہ چاہتا تھا۔ نیٹو کی توسیع روکنا چاہتا تھا اور مشرقی یورپی ممالک کو جو نیٹو میں شریک ہونے کے لئے پَر تول رہے تھے ان کے پَر کاٹنا چاہتا تھا۔ دوسری طرف روس اس اَمر کو بھی یقینی بنانا چاہتا تھا کہ امریکا کا اس سارے معاملے میں ردّعمل کیا ہو سکتا ہے۔ امریکا کس حد تک جا سکتا ہے مگر نیٹو نے اپنی سلامتی کو یقینی بنانے کے لئے یہ طے کر لیا تھا کہ ان کے خطّے میں جنگ نہ ہو تو بہتر ہے۔ یہ نیٹو ممالک کی کمزوری ہے ان کے 27 ممالک ایک د±وسرے کے ساتھ ملے ہوئے ہیں اور روس یورپی یونین کی اس کمزوری سے بخوبی واقف ہے۔”نیو ورلڈ آرڈر“ کی اصطلاح جدید معنوں میں پہلی مرتبہ امریکہ نے پہلی جنگ عظیم کے بعد استعمال کی تھی اور یہ منصوبہ پیش کیا تھا کہ دنیا میں امن کے قیام کے لیے ” لیگ آف نیشنز“ کو استعمال کیا جائے۔
پہلی جنگ عظیم کے بعد تو امریکہ چاہنے کے باوجود دنیا پر حکمرانی کے قریب بھی نہیں پہنچ سکا اور نتیجہ دوسری جنگ عظیم کی صورت میں نکلا اور اس کے بعد 1940 ءسے دسمبر1991ء کا روس امریکہ سرد جنگ کا زمانہ جس میں دنیا کئی بار جنگ اور تباہی کے دھانے پر پہنچی۔ یہ سرد جنگ روس کی شکست پر اختتام پذیر ہوئی اس سرد جنگ کے خاتمے کے بعد جارج بش اور گورباچوف نے یہ’نیو ورلڈ آرڈر“ اصطلاح استعمال کی جس کے تحت جنگوں کا مرکز مسلمان ممالک کو بنایا گیا بلکہ یہ جنگیں کسی نہ کسی بہانے ان پر مسلط کی گئی ۔ افغان جہاد، ایران عراق جنگ، کویت عراق جنگ، افغان جنگ اور شام جنگ سمیت ہر جنگ کا نشانہ مسلمان ممالک بنے۔ مسلمان نشانہ ہیں اور اسلام نشانہ ہے لیکن ہم خواب غفلت سے بیدار ہونے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ اگر مسلمان ممالک باہم متحد ہوتے تو وہ سلامتی کونسل کی رکنیت حاصل کر سکتے تھے۔ اگر مسلمان ممالک یورپی یونین کی طرز پر ایک مضبوط سیاسی ومعاشی اتحاد قائم کرنے میں کامیاب ہو جات ےہیں تو دنیا میں ایک نیا ورلڈ آرڈر قائم ہو جائے گا۔ یہ نیو ورلڈ آرڈر دنیا میں امن لانے کا سبب بنے گا۔