حالیہ عرصے میں یہ دیکھا گیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی، پرتشدد تنازعات، کووڈ۔19 کی وبائی صورتحال اور سپلائی چین میں خلل جیسے عوامل کی وجہ سے دنیا کے اکثر ممالک میں خوراک کی قیمتیں ریکارڈ سطح تک بلند ہو رہی ہیں۔ ان عوامل نے خوراک کے عالمی نظام میں موجود خامیوں کو بے نقاب کر دیا ہے اور کئی حلقوں کی جانب سے خوراک کے عالمی بحران سے متعلق خبردار کیا جا رہا ہے۔
ابھی گزشتہ ستمبر ہی، اقوام متحدہ کے ایک سربراہی اجلاس نے خوراک اور زراعت کے کلیدی فریقوں کو اکٹھا کیا جس میں انسانیت اور کرہ ارض کے لیے خوراک کے نظام کو بہتر بنانے کی خاطر نئے وعدے کیے گئے جن کا تعلق قومی اور بین الاقوامی دونوں درجوں سے تھا۔ اس ضمن میں فوڈ ویلیو چینز میں پائیداری کو یقینی بنانا حکومتوں اور کاروباری اداروں دونوں کے لیے ناگزیر ہو چکا ہے۔ یہ ایک حقیقی اور نادر موقع ہے کہ عالمی سطح پر خوراک کے نظام کو تبدیل کرنے کے لیے فیصلہ کن اقدامات کیے جائیں۔
یہاں اس حقیقت کا ادراک بھی لازم ہے کہ تحفظ خوراک کی ضمانت اجناس کی پائیدار پیداوار، قدرتی ماحولیاتی نظام کے احترام، ایک موئثر گردشی معیشت اور جامع ویلیو چین میں زمین اور وسائل کی ذمہ دارانہ نگرانی پر مبنی ہے۔انہی بنیادوں پر وضع کردہ خوراک کا نظام نہ صرف انسانیت بلکہ کرہ رض کی صحت کے لیے بھی مفید ہے اور انسانی معاشرے میں روزگار اور معاش کو فروغ دے گا۔مزید برآں، اقوام متحدہ کی تحفظ خوراک سرگرمیوں پر عمل درآمد کے لیے دنیا کے اکثریتی ممالک نے آمادگی ظاہر کرتے ہوئے مثبت ردعمل ظاہر کیا ہے۔اس تناظر میں عالمی سطح پر صحت، غذائیت، غربت اور ترقی پر توجہ مرکوز کرنے والی تنظیموں نے اجتماعی اقدامات کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کی کوشش بھی کی ہے۔خوراک کے نظام میں تیز رفتار اصلاحات سے ہی اس بات کو یقینی بنایا جا سکتا ہے کہ
اقوام متحدہ کے 2030 کے پائیدار ترقیاتی ایجنڈے کی تکمیل سے دنیا بھر سے بھوک کا خاتمہ کیا جا سکے۔ایسا حکومتوں کی جانب سے بھرپور عملی اقدامات اور سیاسی عزم کے بغیر ناممکن ہے،حکومتوں اور کاروباری اداروں کو سول سوسائٹی کے شراکت داروں کے ساتھ مل کر قدم بڑھانا چاہیے تاکہ صحیح معنوں میں اقدامات کی تاثیر ممکن ہو سکے۔تحفظ خوراک کے نظام میں جس تبدیلی کی اشد ضرورت ہے وہ اسی صورت میں ممکن ہو گی جب دنیا بھر کے تمام ممالک قومی اور بین الاقوامی وعدوں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے درکار وقت اور وسائل لگائیں۔ مزید ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے، خوراک کے نظام سے متعلق تمام بین الاقوامی سرگرمیوں کو تمام اہم فورمز پر عالمی ماحولیاتی پالیسی سازی کا ایک اہم مقام بننا چاہیے۔ ان میں اقوام متحدہ کا موسمیاتی تبدیلی کنونشن، میتھین اور جنگلات کی کٹائی سے متعلق عالمی سرگرمیوں کا ایجنڈا، قومی سطح پر پیرس موسمیاتی معاہدے کے تحت تعاون، کووڈ۔19 کے بعد بحالی کے منصوبے، سبز بنیادی ڈھانچے کے پروگرام، صحت عامہ کے اقدامات اور پائیدار تجارتی اقدامات، نمایاں اہمیت کے حامل ہیں۔
اس تناظر میں رواں سال 2022 کے دوران انعقاد پزیر اعلیٰ سطحی اجلاس قومی منصوبوں اور وعدوں کو مستحکم کرنے اور ان پر عمل درآمد کے مواقع فراہم کرتے ہیں۔ان میں چین کے شہر کھون مینگ میں منعقد ہونے والے اقوام متحدہ کے حیاتیاتی تنوع کنونشن کے دوران عالمی برادری کو نئے عالمی حیاتیاتی تنوع فریم ورک کو حتمی شکل دینا چاہیے، جس میں خوراک کے نظام کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔اسی طرح جرمنی کی صدارت میں جی سیون، بھوک سے نمٹنے اور فطرت کے تحفظ کے لیے نئے مالیاتی وعدوں کو متحرک کر سکتی ہے۔ انڈونیشیا کی صدارت میں جی ٹونٹی، رکن ممالک کو خوراک کے نظام کی لچک کو مضبوط بنانے، بھوک سے لڑنے، اور خوراک کے ضیاع کو کم کرنے کے لیے کوششیں بڑھانے کا موقع فراہم کر سکتی ہے۔
اسی طرح مصر کی زیر صدارت اقوام متحدہ کے موسمیاتی تبدیلی کنونشن میں موسمیاتی ایجنڈے کوزراعت، غذائیت اور خوراک کے نظام کے ساتھ مربوط طور پر آگے بڑھایا جا سکتا ہے۔اس دوران بین الاقوامی کاروباری اداروں کو بھوک اور غذائیت میں کمی کے خاتمے، صحت بخش خوراک کی فراہمی، سائنس پر مبنی اہداف کی تکمیل اور جنگلات کی کٹائی سے نمٹنے کے لیے اپنے وعدوں پر عمل کرنا چاہیے۔ کثیر الجہتی ترقیاتی بینکس، بین الاقوامی ادارے، عطیہ دہندگان اور مخیر حضرات ہر قسم کی مالی اعانت میں اضافہ کر سکتے ہیں۔ عالمی تجارتی تنظیم کو بھی تمام فریقین کی مشاورت سے اس مسئلے کو عالمی تجارتی ایجنڈے کے مرکز میں رکھنا چاہیے۔اس حقیقت کو ہمیشہ مد نظر رکھنا چاہیے کہ انسانیت پہلے ہی خوراک کے نظام میں ناکامیوں اور کوتاہیوں کا خمیازہ بھگت رہی ہے، یہی وجہ ہے کہ شدید موسمی اثرات، معاشی عدم تحفظ، تنازعات اور کووڈ۔19 بدستور تباہی مچا رہے ہیں۔ایسے میں تحفظ خوراک کے حوالے سے ایک پائیدار اور مستقل حل دنیا کے تمام ممالک کی جانب سے مضبوط سیاسی عزائم اور ٹھوس اقدامات کا متقاضی ہے۔