ایک انسان میں بے پناہ صلاحیتیں ہوتی ہیں اکثر اوقات جنہیں وہ خود نہیں پہچان پاتا اور اپنی صلاحیتوں کو استعمال کیے بغیر ہی دنیا سے سدھار جاتا ہے۔ روز مرہ کے کام تو ہر کوئی انجام دیتا ہے اس میں کوئی انفرادیت نہیں۔ انفرادیت تو یہی ہے کہ اپنی کسی ایسی صلاحیت کو پہچان کر اس کو گروم کرنے کے بعد منظر عام پر لانا اور پھر اسکو معاشرے کی ترقی و فلاح و بہبود کیلئے استعمال کرنا۔ انسان کی صلاحیتوں کی نمو و ترقی ایک ایسے ماحول اورایسے معاشرے میں پنپتی نکھرتی اور سنورتی ہیں جہاں اخلاص نیت کے ساتھ ملکی وسائل کی تقسیم کی جائے ایسے تربیتی ادارے بنائے جائیں جہاں انسانوں کی صلاحیتوں کو پہچان کر انکو سنوارا اور نکھارا جائے۔
ایک صالح تمدن اور فلاحی معاشرہ اسی وقت ترقی اور فلاح کے راستے پر گامزن ہوسکتا ہے کہ جب انسان اپنی شخصیت کے اجزاء، اپنے عادات و اطوار، نفسیات، خیالات و نظریات، کو شعوری طور پر پہچانے اس کو ایک صحیح جہت اور رخ دے کر اسکو مرکز نگاہ اور نصب العین بناکر اس پر اپنی تمام دماغی جسمانی اور روحانی صلاحیتیں اور طاقتیں صرف کردے یہ خود شناسی کا وہ مرحلہ ہے جو بالآخر خدا شناسی تک پہنچا کے دم لیتا ہے۔ اور یہ خدا شناسی ہی درحقیقت انسان کی مادی اور روحانی فلاح و خوش بختی کا نقطہ آغاز بھی ٹھہرتا ہے اور نقطہ انجام بھی،
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جس فلاحی ریاست کی بنیاد رکھی اس میں اسی بات کو ترجیح اول دی گئی اور اسی خود شناسی سے خدا شناسی تک کے تیار کردہ افراد نے اس فلاحی ریاست کی تشکیل میں وہ کارہائے نمایاں انجام دیے اور وہ مثالیں رقم کیں جو قلم لکھنے سے قاصر ہے۔ تجدید واحیاء پر مبنی نبوی تربیت نے ان کی شخصیتوں کو وہ اسلوب وہ سوز وگداز بخشا کہ اب انکو ہر وہ عمل ہر وہ نظام آنکھ میں خار بن کے کھٹکتا جو تجدد، تشدد اور افراط وتفریط پر مبنی ہوتا اور جب تک کہ اس کو تجدیدی( متوازن) حالت و کیفیت میں نہ لے آ تے سکون نہ پاتے۔ کیوں؟ کیونکہ وہ جانتے تھے، انہیں شرح صدر تھا اس بات پر کہ خدائی اسکیم وتھیم ہی وہ طرز فکر و عمل ہے جو نہ صرف افراد کاتزکیہ و تطہیر ،تعمیر وتشکیل وتنظیم کرتی ہے انکی صلاحیتوں کو پروان چڑھاتی ہے انکی روحانی و اخلاقی بڑھوتری کیلئے تغذیے کا کام کرتی ہے بلکہ اس جہاں کی نمو ،نمود اور بڑھوتری کیلئے بھی یہی نسخہ کیمیا اور نسخہ شفاء ہے ۔
آ ج یہ دور جدید بھی اسی متوازن طرز فکرو عمل کا متقاضی ہے کہ جسمیں تڑپتی سسکتی جاں بلب انسانیت کو جلا اٹھانے اور اسکی پیاس بجھانے کا سامان ہو۔ اور سامان تو اسکے سامنے ہے، بس ضرورت فقط اتنی ہے کہ پیاسے کو خود چل کر سمندر تک جانا ہے ۔ سمندر منتظر ہے پیاسے کا کہ وہ اٹھے اور سیراب ہوجائے ۔