عہد حاضر میں اگر کسی بھی ملک کے ترقیاتی سفر کا جائزہ لیا جائے تو کہا جاتا ہے کہ چین نے کرشماتی ترقی کی ہے اور انتہائی قلیل عرصے میں دنیا کی بڑی معاشی طاقتوں کو ترقی کے ہر میدان میں کافی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ ظاہر ہے ایک ترقی پزیر ملک کی حیثیت سے تمام شعبہ ہائے زندگی میں آگے بڑھنا یقیناً کوئی آسان کام نہیں مگر چین نے چند اصولوں پر مستقل اور ثابت قدمی سے قائم رہتے ہوئے نہ صرف خود پائیدار ترقی کی ہے بلکہ دنیا کے دیگر ترقی پزیر ممالک کے لیے بھی اُمید کا دیا روشن کیا ہے۔
معیشت اور معاش کی تاریخ کا جائزہ لینے سے پتہ چلتا ہے کہ ترقی پذیر ممالک کے لیے، ایک فعال اور مضبوط سیاسی نظام اور مو¿ثر گورننس تیز رفتار اقتصادی ترقی کے حصول کی کلید ہے۔چین نے اسی راہ پر چلتے ہوئے جدیدیت کا ایک منفرد راستہ تشکیل دیا اور اپنی گورننس کو وقت کے بدلتے تقاضوں سے ہم آہنگ کرتے ہوئےاسے توسیع دی۔ملک میں برسراقتدار جماعت کمیونسٹ پارٹی آف چائنا کی جانب سے ”عوام ملک کے حقیقی حکمران” کے نظریے کی من و عن پیروی کی گئی اور لوگوں کے معاش میں بہتری کے حوالے سے ایسے سازگار حالات پیدا کیے گئے جن کا بالعموم ترقی پزیر ممالک میں تصور نہیں تھا۔ تیز رفتار معاشی ترقی کے لیے سبھی عوامل بشمول بنیادی ڈھانچہ، قانونی نظام، صنعتی پالیسیاں، تعلیم اور تربیت، سائنس و ٹیکنالوجی،ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ وغیرہ کو جدید خطوط پر استوار کیا گیا۔
ایسا نہیں ہے کہ چین کی جانب سے سوشلسٹ جدیدیت اور ترقیاتی سفر کے دوران کوئی مسائل سامنے نہیں آئے ہیں بلکہ بے شمار اندرونی اور بیرونی چیلنجز اور رکاوٹوں کو عبور کرتے ہوئے مستقل مزاجی سے آگے بڑھا گیا ہے۔یوں چین نے سی پی سی کی مضبوط قیادت میں پیچیدہ اور بدلتے ہوئے بیرونی اور اندرونی ماحول کا سامنا کرتے ہوئے، ”دو معجزات” تخلیق کیے یعنیٰ تیز رفتار اقتصادی ترقی اور طویل مدتی سماجی استحکام۔اس دوران، سی پی سی نے اپنی دور اندیشی اور مضبوط سیاسی قیادت کے ساتھ ساتھ فکری رہنمائی، عوامی تنظیم اور سماجی تحریک میں اپنی طاقت کا بھرپور مظاہرہ کیا ہے۔ پارٹی نے اپنے مخصوص کردار کا عملی مظاہرہ کرتے ہوئے لوگوں کے لیے خوشحالی اور چینی قوم کی عظیم نشاتہ الثانیہ کے اپنے اصل مقصد اور بانی مشن پر عمل کیا اور خود اصلاحی کے جذبے پر کاربند رہا گیا۔ یہاں چین کو دیگر ممالک پر اس لحاظ سے برتری حاصل ہے کہ چینی قیادت نے کسی دوسرے ملک کے ترقیاتی ماڈل کی تقلید کے بجائے یہ واضح کیا کہ ملک کے معروضی حالات کی روشنی میں ہمیں اپنے ماڈل کی جستجو کرنی چاہیے۔ خود مختاری ہی وہ بنیاد ہے جس نے چین کو ایک تاریخی جدوجہد کی راہ پر گامزن کیا اور آج وہ دنیا کی دوسری بڑی معیشت بن چکا ہے۔
خود مختار طور پر آگے بڑھنا اور زندگی کے تمام معاملات میں خود انحصاری کی جستجو چین کی وہ مخصوص خوبی ہے جس میں لوگوں کو جدیدیت کی جانب منفرد چینی راہ تلاش کرنے میں رہنمائی کی جاتی ہے۔ یہاں اس حقیقت کا ادراک بھی لازم ہے کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد کی دنیا کی تاریخ ظاہر کرتی ہے کہ ترقی پذیر ممالک کے لیے مغربی ترقی یافتہ ممالک کے زیر تسلط بین الاقوامی سیاسی اور اقتصادی نظام میں ترقی اور جدیدیت کا حصول ہر گز آسان نہیں رہا ہے۔چند ترقی پذیر ممالک نے اس جدوجہد میں اپنی آزادی کھونے کی قیمت ادا کی ہے، اور مختلف نوعیت کے ”ترقیاتی جال” میں پھنس چکے ہیں۔اس کے برعکس جدیدیت کا منفرد چینی راستہ مغربی اطوار سے یکسر مختلف ہے کیونکہ مغرب کا نظام سرمائے پر مرکوز ہونے کے ساتھ ساتھ پولرائزڈ اور مادہ پرست ہے۔ چینی طرز کی جدت کاری ترقی پذیر ممالک کے لیے جدیدیت کی راہ کو وسیع کرتی ہے، اور بنی نوع انسان کو ایک بہتر سماجی نظام کی تلاش میں چینی حل فراہم کرتی ہے۔چینی راستہ یہ ثابت کرتا ہے کہ جدیدیت کا کوئی طے شدہ راستہ نہیں اور نہ ہی اس کا کوئی مخصوص پیمانہ ہے، یہ بتاتا ہے کہ جو بھی راستہ انفرادی ملک کے قومی حالات کے مطابق ہو وہ آگے بڑھنےکا بہترین راستہ ہے۔