روزہ وہ عظیم فریضہ ہے جس کو رب ذوالجلال نے اپنی طرف منسوب فرمایا ہے اور قیامت کے دن رب تعالیٰ اس کا بدلہ اور اجر بغیر کسی واسطہ کے بذات خود روزہ دار کو عنایت فرمائیں گے۔ خداوند کریم نے اپنے بندوں کے لئے عبادات کے جتنے بھی طریقے بتائے ہیں ان میں کوئی نہ کوئی حکمت ضرور پوشیدہ ہے۔ نماز خدا کے وصل کا ذریعہ ہے۔ اس میں بندہ اپنے معبودِ حقیقی سے گفتگو کرتا ہے۔ روزہ بھی خدا تعالیٰ سے لَو لگانے کا ایک ذریعہ ہے۔ اس مبارک مہینے سے رب ذوالجلال کا خصوصی تعلق ہے جس کی وجہ سے یہ مبارک مہینہ دوسرے مہینوں سے ممتاز اور جدا ہے۔
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور کا فرمان ہے کہ میری امت کو ماہ رمضان میں پانچ چیزیں ایسی عطا کی گئیں جو مجھ سے پہلے کسی نبی علیہ السلام کو نہ ملیں۔ماہ رمضان برکتوں والا مہینہ ہے اور اس ماہ کی عظمت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ قرآن مقدس کا نزول اسی پاک مہینے میں ہوا۔ رمضان کا پہلا عشرہ رحمت، دوسرا عشرہ مغفرت اور تیسرہ عشرہ جہنم کی آگ سے نجات کا ہے۔ جب رمضان المبارک کا چاند نظر آتا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے تھے کہ یہ چاند خیر و برکت کا ہے‘ یہ چاند خیر و برکت کا ہے، حضرت جبرائیل علیہ سلام نے دعا کی کہ ہلاک ہوجائے وہ شخص جس کو رمضان کا مہینہ ملے اور وہ اپنی بخشش نہ کرواسکے، جس پر حضرت محمد ﷺ نے ارشاد فرمایا آمین! حضرت جبرائیل علیہ سلام کی یہ دعا اوراس پر حضرت محمد کا آمین کہنا اس دعا سے ہمیں رمضان کی اہمیت کو سمجھ لینا چاہئے۔
جب رمضان المبارک کی پہلی رات ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ ان کی طرف رحمت کی نظر فرماتا ہے اور جس کی طرف اللہ نظر رحمت فرمائے اسے کبھی بھی عذاب نہ دے گا۔ دوسری یہ کہ شام کے وقت ان کے منہ کی بو اللہ تعالیٰ کے نزدیک مشک کی خوشبو سے بھی بہتر ہے۔ تیسرے یہ کہ فرشتے ہر رات اور دن ان کے لئے مغفرت کی دعائیں کرتے رہتے ہیں۔ چوتھے یہ کہ اللہ تعالیٰ جنت کو حکم دیتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے ”میرے (نیک) بندوں کے لئے مزین ہوجا عنقریب وہ دنیا کی مشقت سے میرے گھر اور کرم میں راحت پائیں گے۔ پانچواں یہ کہ جب ماہ رمضان کی آخری رات آتی ہے تو اللہ تعالیٰ سب کی مغفرت فرمادیتا ہے۔ رمضان کے اس مبارک ماہ کی ان تمام فضیلتوں کو دیکھتے ہوئے مسلمانوں کو اس مہینہ میں عبادت کا خاص اہتمام کرنا چاہیے اور کوئی لمحہ ضائع اور بے کار جانے نہیں دینا چاہیے۔ رمضان المبارک کو قرآن کریم سے خاص نسبت ہے۔ اس کی صراحت خود قرآن کریم میں کردی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:”رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن کریم نازل کیاگیا، جو انسانوں کے لیے سراسر ہدایت ہے اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے جو راہ راست دکھانے والی اور حق وباطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہیں “۔سال کے دیگر مہینوں کے مقابلے میں ماہ رمضان کو یہ خصوصیت حاصل ہے کہ اس میں قرآن کریم نازل کیاگیا ہے۔
اللہ تعالیٰ کی یہ کتاب انسانوں کی صحیح راستے کی طرف رہ نمائی کے لیے اتاری گئی ہے۔ اس کے اندر ایسے محکم دلائل اور قطعی حجتیں ہیں جو حق وباطل کے درمیان امتیاز کرنے والی ہیں۔ اس میں ایسی روشن نشانیاں موجود ہیں جو قیامت تک پیش آنے والے پیچیدہ سے پیچیدہ امور ومسائل کو حل کرنے میں عقل انسانی کی رہ نمائی کے لیے کافی ہیں۔ اس عظیم نعمت کی شکرگزاری کے لیے اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس مہینے کو روزوں کے لیے خاص فرمایا، جس میں قرآن کریم نازل ہوا تھا، تاکہ اس کے بندے اس ماہ مبارک میں اپنے نفس کا زیادہ سے زیادہ تزکیہ کریں اور اس کی عبادت میں خود کو زیادہ سے زیادہ مصروف رکھ کر اس کا زیادہ سے زیادہ تقرب حاصل کریں۔ رمضان المبارک کا آغاز ہوتے ہی جہاں ہم مختلف عبادتوں کا خصوصی اہتمام کرتے ہیں، وہیں ہمیں قرآن کریم کا فہم حاصل کرنے کی بھی شعوری کوشش کرنی چاہیے۔ ہمیں اپنا پروگرام اس طرح ترتیب دینا چاہیے کہ روزانہ کم از کم ایک پارہ تلاوت کرنے کے ساتھ اس کا ترجمہ بھی پڑھ لیں۔ موقع ملے تو کسی تفسیر کو بھی شاملِ مطالعہ کرلیں، ایسے دینی اجتماعات میں شرکت کریں جن میں قرآن کا درس دیا جاتا ہو یا اجتماعی مطالعہ کیاجاتا ہو، ایسی کتابوں کا مطالعہ کریں جن میں قرآنی تعلیمات پیش کی گئی ہوں۔ یہ تدابیر ان شاء اللہ قرآن کریم سے ہمارے تعلق میں اضافہ کا باعث بنیں گی۔ تمام مومنوں پر دوگنی ذمہ داری عائد ہوجاتی ہے کہ اس مہینہ میں نماز، روزہ، زکوٰة، صدقہ فطر اور دیگر عطیات کے ساتھ بطور خاص انسانی ہمدردی اور مروت کا خوب خوب مظاہرہ کریں اور جو بھی ہماری مروت و ہمدردی کے حقدار ہیں، ان سے صرف زبانی نہیں بلکہ عملی طورپرمدد کرکے ہمدردی کا ثبوت دیں اورایمانی تقاضوں کو پوراکریں۔
اللہ کے رسولﷺنے ارشاد فرمایا: جو شخص خود تو شکم سیر ہو کر کھائے لیکن اس کا پڑوسی بھوکا رہے تو ایسا شخص جنت میں نہیں جائے گا“۔ اسی طرح کوئی روزہ دار خود تو سحری و افطار میں بہترین لذیذ چیزیں اور طرح طرح کے شربت پیئے لیکن اس کے پڑوسی کو معمولی غذا بھی پیٹ بھر کرنہ ملے تو کوئی بعید نہیں کہ ایسا شخص جہنم کا شکار ہوجائے۔ بھوکوں کو کھانا کھلانا اور لوگوں کو سلام کرنا ایمانی تقاضوں میں سے ہیں۔ حضرت عبداللہ ا بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے رسول اللہ سے دریافت کیا:یا رسول اللہ ! اسلام کا کون سا عمل سب سے بہتر ہے؟ آپ نے فرمایا”: غریبوں کو کھانا کھلانا اور جانے انجانے ہر کسی کو سلام کرنا“۔
مزید یہ حدیث پاک بھی یاد رکھنے کی ہے۔ جو ضرورت مندوں پر خرچ کرتاہے، لوگوں کو سلام کرتا ہے ایمان سے ہے۔ حضرت عماد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺنے ارشاد فرمایا :تین باتیں ایمان سے ہیں۔(۱) ضرورت مندوں پر خرچ کرنا(۲) ہر کسی کو سلام کرنا(۳)اپنے نفس کے ساتھ انصاف کرنا۔