اقتدار کی جنگ

حزب اختلاف کی جانب سے مہنگائی مکاؤ مارچ اور حزب اقتدار کی جانب سے امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے نام سے اقتدار کی جنگ جاری ہے۔ اور معاملات جو روز بروز نازک اور سنگین ہورہے ہیںوہ پارلیمانی نظام کی روایات کو نہ اپنانے کی وجہ سے ہورہے ہیں۔ مملکت خداداد پاکستان میں پارلیمانی نظام کبھی بھی استحکام کا باعث نہیں رہا کیونکہ یہاں حکمران اقتدار سے چمٹے رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہماری سیاسی جماعتیں اخلاقی، قانونی تقاضوں اور اصول و ضوابط کو نظر انداز کر کے ہمیشہ الیکٹ ایبلز کا سہارا لیتی ہیں اور پھر اس کا خمیازہ انہیں اس وقت بھگتنا پڑتا ہے جب حکومت پر کوئی کڑا وقت آتا ہے جیسا کہ آج کل پی ٹی آئی کی حکومت کو سامنا ہے۔

دنیا کے دوسرے جمہوری ممالک جن کا تذکرہ ہمارے حکمران تواتر سے کرتے ہیں ، عدم اعتماد کی تحریکیں کسی بڑی سیاسی لڑائی کے بغیر منتخب ایوانوں میں آئینی حدود کے اندر رہتے ہوئے ٹھوس دلائل پر مبنی بحث مباحثے کے بعد خوش اسلوبی سے نمٹاتے ہیں، وہاں حکمران اپنا اقتدار برقرار رکھنے کیلئے ہر جائز و ناجائز ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں نہ اپوزیشن انہیں ہر قیمت پر بے دخل کرنے کیلئے تل جاتی ہے ۔ جبکہ وزیراعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک میں تمام آئینی روایات پامال ہوتے دکھائی دے رہی ہیں اور معاملہ پارلیمنٹ سے زیادہ سڑکوں اور عدالتوں میں چلے جانے کی نوبت آ گئی ہے ۔

تحریک انصاف کی موجودہ حکومت کے حالات سب کے سامنے ہیں۔وزیراعظم عمران خان لاکھ دعویٰ کریں کہ انہوں نے ملک کو سیدھی راہ پر ڈال دیا ہے ، زمینی حقائق کچھ اور ہی کہانی سناتے ہیں۔ بلاشبہ وزیراعظم عمران خان کی حکومت اپنے ولولہ انگیز وعدوں کو پورا کرنے میں بری طرح ناکام رہی ہے ۔ انہوں نے سیاسی مخالفین کو انتقامی غضب کا نشانہ بنایا، میڈیا کی آزادی کو ختم کیا، پارلیمنٹ کو پس پشت ڈالا، احتساب کو سیاسی انتقام اور سماجی و سیاسی ماحول کو خراب کرتے ہوئے ایک مکروہ سیاسی کلچر متعارف کرایا۔ مذہبی انتہا پسندی کو روکنے اور دہشت گردی پر قابو پانے میں ناکامی کیساتھ عمران خان نے ناسمجھی میں پاکستان کو تنہا اور سی پیک کو غیر فعال کر دیا اور یوں پاکستان کو اندرونی اور بیرونی طور پر تباہی کے دہانے پر دھکیل دیا۔ پنجاب میں گورننس کا جو حال ہوا ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ۔ وزیراعظم عمران خان نے اپوزیشن سے بات تک کرنے کو اپنے لیے شجر ممنوعہ بنائے رکھا،جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آرڈی نینسوں کے ذریعے کام چلایا جاتا رہا، حالات بڑھتے بڑھتے عدم اعتماد کی تحریک تک آ گئے ہیں اور اس وقت دونوں طرف سے الزامات اور القابات کی پٹاری کھلی ہوئی ہے۔ تحریک انصاف کے ناراض اراکین اسمبلی کو اپوزیشن کے حق میں ووٹ کے استعمال سے روکنے کیلئے حکومت نے سپریم کورٹ میں صدارتی ریفرنس دائر کر دیا ہے ۔ اس کے ساتھ ہی حکمران پارٹی ایک طرف منحرفین کی قیام گاہوں اور گھروں پر پرتشدد مظاہرے کرا رہی ہے اور انہیں ضمیر فروش اور غدار جیسے الزامات سے نواز رہی ہے تو دوسری طرف وزیراعظم انہیں واپس لانے کے جتن بھی کر رہے ہیں اور دھمکیاں دینے کے علاوہ ان کیلئے عام معافی کے اعلانات بھی کر رہے ہیں کیونکہ ان کے بغیر حکومت کا چلنا ناممکن نظر آتا ہے۔

بلاشبہ اقتدار آنی جانی چیز ہے ، حکمرانوں اور قائدین کو صرف اقتدار حاصل کرنے کی امنگ ہی نہیں،اقتدار سے علیحدگی کا ادراک بھی ہونا چاہئے ۔ بہترتھا کہ پارلیمنٹ کا معاملہ پارلیمنٹ ہی میں طے کیا جاتا ، اس میں اداروں کو ملوث کیا جاتا نہ عدالتوں کو ۔ یا پھر حکومت اس برس عام انتخابات کا اعلان کردیتی، اور انتخابی اصلاحات اور قومی اتفاق رائے کے لیے دونوں اطراف با مقصد مذاکرات کا آغاز کردیا جاتا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ بیساکھیوں کے سہارے کچھ دیر تک تو کھڑا رہا جاسکتا ہے مگر مستقل طور پر کھڑے رہنا نا ممکن ہوتا ہے ۔ وزیر اعظم عمران خان کے لیے بھی بہتر راستہ یہی ہے کہ اگر ان کی پارٹی کے دس سے زیادہ ایم این اے ان کی پالیسیوںپر اعتماد نہیں کررہے تو ان کو قانون کے مطابق مطلوبہ افراد کی حمایت حاصل نہیں رہی ، وہ باعزت طریقے سے قوم کو اعتماد میں لیں اور ایسے متنازع اقتدار کو چھوڑ دیں، اسطرح عوام ان کے زیادہ گرویدہ ہوجائیں گے ۔ بہت سے لوگ اقتدار سے باہر رہ کر زیادہ محترم ہوجاتے ہیں۔ سنگین حالات میں حکومتیں ہمیشہ مصالحت کی کوشش کرتی ہیں، صبر و تحمل سے کام لیتی ہیں، اور تصادم اور توڑ پھوڑ روکنے کی تدابیر کرتی ہیں مگر بدقسمتی سے یہاں خود حکومتی عمائدین ہی اشتعال انگیزی اور مار دھاڑ کے اسباب پیدا کرنے میں پیش پیش ہیں۔ بہر حال تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوتی ہے یا ناکام لیکن ملک اگرایک بحران سے نکلتے نکلتے کسی نئے بحران میں پھنس گیا تو تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔

موجودہ تشویشناک صورتحال میں یہ خبر امید کی ایک کرن کے طور پر سامنے آئی ہے کہ ملک و ملت کے بعض بہی خواہ حکومت اور اپوزیشن کو آمنے سامنے بٹھا کر معاملات سلجھانے کی راہ دکھا رہے ہیں۔ اس وقت ملک جس بحرانی کیفیت میں مبتلا ہے ،مسائل جس قدر بڑھ چکے ہیں،ان کا تقاضا ہے کہ سیاسی جماعتیں ایک دوسرے پر اعتماد کریں۔ ملک میں قومی حکومت قائم نہیں ہو سکتی تو کم از کم حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ورکنگ ریلیشن شپ تو قائم کی جا سکتی ہے ۔ جمہوری کلچر کے فقدان اور بڑھتے ہوئی سیاسی محاذ آرائی کے پیش نظر، ایسی تمام کوششوں سے گریز کیا جانا چاہیے جو جمہوری پارلیمانی عمل کو پٹری سے اتار سکتی ہوں ۔