بھارت میں حجاب پر پابندی برقرار رکھنے کے عدالتی فیصلے نے نہ صرف ہندوستان کی سب سے بڑی اقلیت کو مایوس کیا ہے بلکہ بھارتی نام نہاد سیکولر ازم کا بھی پول کھل گیا ہے۔ بے شک نریندر مودی کی بھگوا حکومت نے فرقہ واریت کے زہر کو جس طرح سے ہر گوشہ حیات تک پہنچانے کا کام کیا ہے، اس کے پیش نظر یہ کہا جاسکتا ہے کہ کرناٹک ہائی کورٹ کے اس فیصلہ سے مسائل میں مزید اضافہ ہوگا اور تعلیم گاہوں کے علاوہ روزمرہ کے معمول میں بھی مسلم بچیوں اور عورتوں کو منفی رویوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ عدالت کی ذمہ داری یہ تھی کہ ایسے زہر آلود ماحول میں اپنے فیصلہ کے ذریعہ سیکولرازم کا تحفظ کیا جاتا۔
حجاب کا نام گرچہ الگ الگ مذہب میں مختلف رہا ہو لیکن شاید ہی کوئی مذہب ہو جس نے کسی نہ کسی صورت میں حجاب کو عملی طور پر برتنے کی ترغیب نہ دی ہو۔کرناٹک ہائی کورٹ نے کرناٹک حکومت کی اس پابندی سے متعلق فیصلہ کو درست قرار دیا ہے کہ اسکولوں و کالجوں میں مسلم لڑکیوں کو حجاب پہننے کی اجازت نہیں۔عدالت نے فریقین کی دلائل سننے کے بعد یہ نتیجہ اخد کیا کہ اسلام میں حجاب کو ایک لازمی پریکٹس نہیں مانا گیا ہے یعنی حجاب پہننا لازمی نہیں ہے۔ بھارت میں اگر پگڑی پہننے یا دستار کے استعمال کی اجازت اس بنیاد پر دی گئی ہے توپھر مسلم بچیوں نے کیا خطا کی ہے، انہیں بھی حجاب پہننے کی اجازت کم از کم ان کی شناخت کے حوالہ سے ہی سہی کیوں نہ دی جائے۔
مشہور فرانسیسی ماہرقانو ن کوویل کا کہنا ہے کہ وہ قانون یا حق جو تحریر نہ ہوا ہو بلکہ ہمارے آباواجداد کی منظوری سے ایک عرصے تک استعمال ہونے کی وجہ سے قائم ہو اور روزانہ اس پر عمل ہورہا ہو تووہ رواجی قانون کے زمرہ میں آتا ہے۔ جہاں تک پردے کی بات ہے، اگر پردہ اور سرڈھانکنا احترام کی نشانی نہیں تو مندر، مسجد اورگرودوارے میں سر کیوں ڈھانپا جاتا ہے ۔جس طرح عورتوں کا کم کپڑے پہننا ان کا جمہوری حق ہے عین اسی طرح حجاب بھی خواتین کا جمہوری حق ہے۔ اسے بنیادی انسانی حق بھی کہاجاسکتا ہے۔اس حق میں نہ تو کوئی معاشرہ مداخلت کا اختیار رکھتا ہے اور نہ کوئی عدالت ہی انسانوں کے اس حق پر اپنی کوئی رائے مسلط کرسکتی ہے۔
ہندوستان جیسے سیکولر ملک میں جہاں آئین نے مذاہب کے یکساں احترام اور اپنے شہریوں کی انفرادی اور مذہبی آزادی کی ضمانت دی ہو، وہاں یکسانیت کے نام پر طالبات کو سر ڈھانپنے کی اجازت نہ دینا آئین سے متصادم اور مذہبی آزادی پر قدغن کی کوشش سمجھی جائے گی۔اس سے نہ صرف یہ کہ ہندوستان کی سیکولر روایت داغدار ہوگی بلکہ ایک بڑا طبقہ اس جبر کی وجہ سے تعلیم کے بنیادی حق سے بھی محروم ہونے کا سزاوار ٹھہرے گا۔کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلہ سے غیرمطمئن فریق اگر اس کے خلاف اعلیٰ عدالت سے رجوع کرتا ہے تو اسے اس کا حق حاصل ہے۔ اسے کسی بھی طرح توہین عدالت یا ججوں کی منصفی اور ایمانداری پر شبہ نہیں ٹھہرایاجاسکتا۔
نریندر مودی کی سربراہی میں قائم بھارتی حکومت نے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور خواتین کے ساتھ جنسی تشدد کے تمام سابقہ ریکارڈ توڑ دئیے ہیں۔ اس نے بھارت کے چہرے پر چڑھے سیکولر ازم کے نقاب کو ازخود ہی نوچ پھینکا ہے ا ور اس کی جگہ ہندوتوا نے لے لی ہے۔ آئے روز خواتین کی سرعام بے عزتی، بدسلوکی اور جنسی تشدد کے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں لیکن نہ تو بھارت کے اندر انسانی حقوق کی کوئی تنظیم اس ظلم و زیادتی پر آواز بلند کرتی ہے اور نہ وہاں کی عدالتیں مظلوم و متاثرہ مسلمان باشندوں کو انصاف مہیا کرتی ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ پورا سماج ہی مسلم دشمنی کی عملی تصویر بن چکا ہے۔
اسلام آرائش کا حکم دیتا ہے نما ئش کا نہیں جبکہ مو جودہ معاشرے میں اظہار ِحسن و جما ل کی خوا ہش نے عورت کے ذہنوں پر تسلط جماکربے حیائی میں مبتلا کر دیا ہے۔ کہیں فن کے نام پر، کہیں ترقی کے نام پر، کہیں آرٹ کے نام پرعورت کی نہ صرف شرف ِنسوانیت پامال کی ہے بلکہ مغرب کی اندھی تقلید نے عورت کو بے حیائی کی دلدل میں گھسیٹ کرمسلم خاندان کا شیرازہ بکھیر دیا ہے۔ رسول اللہ کا ارشاد ِ مبارک ہے: حیا ء اور ایمان ایک دوسرے کے ساتھی ہیں ،جب ایک اٹھ جاتا ہے تودوسرا بھی اٹھا لیا جاتا ہے۔ (مشکوٰة)
اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ اے نبی، اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور اہل ایمان کی عورتوں سے کہہ دو کہ اپنے اوپر اپنی چادروں کے پلو لٹکا لیا کریں یہ زیادہ مناسب طریقہ ہے تاکہ وہ پہچان لی جائیں اور نہ ستائی جائیں اللہ تعالیٰ غفور و رحیم ہے۔ (سورة الاحزاب ) اسلام دین فطرت ہے نیز ایک بہترین ضابطہ حیات کے ذریعے پاکیزہ، صالح، باحیاءمعاشرہ کی ترجمانی کرتا ہے۔ جہاں سبھی کو اپنے حقوق حاصل ہیں۔ عورت کے تحفظ کے لئے ایسے قواعد مقرر کیے گئے جو ہر فطرت سلیم قبول کرتی ہے۔ پردے کا حکم دے کر اسلام نے عورت کو عزت و تکریم کے اعلی مقام عطا کیا۔ حجاب عربی اور پردہ فارسی لفظ ہے جس کے معنی آڑ، حیائی، برقع، نقاب کے ہوتے ہیں۔
حجاب عربی لغت میں2 چیزوں کے درمیان حائل ہوجانے والی اس آڑ یا اوٹ کا نام ہے جس کی وجہ سے دونوں ایک دوسرے سے او جھل ہو جاتے ہیں۔ حجاب اسلامی شعار ، امت مسلمہ کا تشخص اور حجاب کا مقصد سترپوشی کرنا نیز فتنے سے بچانا ہے۔ حجاب محض سر پر ڈھانکے جانے والا کپڑا نہیں بلکہ مسلم و پاکیزہ عورت کی شناخت اورعصمت کا محافظ ہے۔ حقیقی حُسن بے حیا ئی و بے حجابی میں نہیں بلکہ حقیقی حسن وہ ہے جو آنکھوں کو حیاءاور دل کو ایمان وتقویٰ سے معمور کریں۔ حجاب کا تعلق نظر، زبان اور لباس سے ہے۔ شرم وحیاءعورت کا زیور ہے اور پردہ و حیاء دونوں باہم مشروط ہیں۔ رسول اللہ کا ارشاد ہے: عورت پوشیدہ چیز ہے، جب وہ باہر نکلتی ہے تو شیطان اس کی تاک جھانک میں لگا رہتا ہے۔ (ترمذی)۔ نیز فرمایا: جب تجھ میں حیاءنہیں تو پھر جو تیرا دل چا ہے کرے۔(بخاری)
بلا شبہ حجاب اب مسلمان عورت کی آزادی کی علامت بن کر ابھرا ہے۔ یہ ہمارا فخر، ہمارا وقار، ہمارا افتخاراورہماری زینت بن گیاہے اور سب سے بڑی بات کہ اس کا حکم قرآن میں ہے اور اس حکم کو اختیار کر کے ایک مسلم عورت خود کو محفوظ سمجھتی ہے اور یہ پاکیزہ معاشرے کی علامت کے ساتھ ساتھ اسلامی تہذیب، ثقافت روایات کا علمبردار بھی ہے۔