شکر ادا کیسے کریں؟

اسلام نے شکر ادا کرنے کے ہمیں چار طریقے بتلائیں ہیں۔

1: دل سے۔

2: زبان سے۔

3: نعمتوں کے استعمال سے۔

4: مخلوق خدا کی خدمت سے۔

دل سے شکر ادا کرنے کا طریقہ:

دل سے شکر ادا کرنے کے دو طریقے ہیں احترام منعم اور محبت منعم احترام منعم کا مطلب ہے کہ نعمت دینے والے کا احترام کیا جائے۔ اور محبت منعم کا مطلب یہ ہے کہ نعمت دینے والے سے محبت کرنا۔خواہ وہ انسان ہو یا اللہ دونوں برابر ہیں۔ مثلا اگر کوئی آپ پر احسان کرتا ہے اور آپ اس کی بجائے احترام کسی اور کا کریں تو وہ ناراض ہو جائے گا بالکل اسی طرح اللہ تعالیٰ نے ہمیں بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے اگر ہم اللہ کی بجائے کسی اور کا احترام و اکرام کریں گئے تو اس عمل سے اللہ تعالیٰ بہت سخت ناراض ہو جاتے ہیں۔

ہم اللہ اکبر تو کہتے ہیں لیکن دل میں احترام پیسے کا ہے کہ اس سے سب کچھ ہوتا ہے اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہو سکتا. ایسے نظریے اور عقیدہ سے اللہ ناراض ہوتے ہیں۔یہ ایک فطرتی اصول ہے ” الانسان عبد الاحسان ” کہ جس شخص پر کوئی احسان کرتا ہے وہ بندہ اس کا غلام بن جاتا ہے اور اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہے اور اس کی پسند کو ترجیح بھی دیتا ہے اسی طرح ہمیں بھی چاہیے کہ ہم اپنے منعم حقیقی اللہ تعالیٰ کے احکامات کو ہر وقت ماننے کی اور ترجیح دینے کی کوشش کریں۔

زبان سے شکر ادا کرنے کا طریقہ:

زبان سے شکر ادا کرنے کے بھی دو طریقے ہیں تحدیث بالنعمت اظہار کرنا اور دوسرا طریقہ یہ ہے کہ زبان سے تعریف کرنا۔ زبان سے تحدیث بالنعمت کا مطلب ہے کہ انسان اس کا اقرار اور اظہار کرے کہ یہ چیز میرے ابو نے یا بھائی وغیرہ نے دی ہے اس میں ریا کاری مقصود نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ کی ہر دی ہوئی چیز پر الحمدللہ کہیں۔ مثلاً الحمد للہ ، اللہ نے مجھے آنکھوں کی نعمت سے نوازا وغیرہ۔

بندوں کا شکر ادا کرنے کا مطلب یہ ہے کہ جب کوئی آپ کو کوئی چیز دے اس پر اس کو “جزاک اللہ” کہ دیا جائے تاکہ اس کے ذریعے اس کی دی ہوئی نعمت کا اس کو بدلہ مل جائے۔ حدیث میں آپ نے فرمایا : “جو شخص بندوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ میرا بھی شکر ادا نہیں کرتا “

نعمتوں کے عملی استعمال سے:

عملی استعمال کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی کی دی ہوئی نعمتوں کو عملی طور پر استعمال کرنا اور اس کا استعمال کر کے اظہار کرنا

ایک مشہور واقعہ ہے کہ ایک صحابی آپ کے پاس آئے اور انہوں نے میلے کچیلے کپڑے پہنے ہوئے تھے جس پر آپ نے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ جاؤ کپڑے صاف ستھرے پہن کرآؤ کیونکہ “اللہ تعالیٰ خود بھی جمیل ہیں اور خوبصورت اور جمال کو پسند کرتے ہیں” جب ہم اللہ تعالی کی دی ہوئی نعمتوں کا اپنے وجود پر اظہار کرتے ہیں تو اس سے اللہ تعالی بہت خوش ہوتے ہیں لیکن اگر استعمال نہ کی جائیں تو یہ بھی ایک ناشکری ہے۔

مخلوق خدا کی خدمت کر کے شکر ادا کرنا:

مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی کی دی ہوئی نعمتوں سے دوسروں کو فائدہ پہنچانا مثلاً اپنے علم، عمل، ہنر، مال اور تزکیہ نفس وغیرہ سے دوسروں کی رہنمائی کرنا یہ بھی ایک شکر کا بہت بڑا طریقہ ہے۔

شکر ادا کرنے کی کیفیت کیسے پیدا ہو؟

ہمارے طبیعتوں میں اس وقت شکر ادا کرنے کی کیفیت ہوگی جب ہم “دنیا کے معاملات میں ہمیشہ اپنے سے نیچے والے طبقے کو دیکھیں اور اس کے بارے میں سوچیں اس سے شکر کی کیفیت پیدا ہو گی اور ہر وقت ہائے ہائےکر کے رونے دھونے سے بھی جان چھوٹ جائے گی۔

شیخ سعدی رحمۃ اللہ علیہ کی مشہور حکایت ہے کہ کسی شہر میں پہنچے تو انکی جوتی پھٹ گئی اور نئی خریدنے کی استطاعت نہ تھی تو بیحد ملول ہوئے کہ اتنے فضل وکمال کے باوجود اللّٰہ نے اس حال میں رکھا ہے کہ پاؤں میں جوتی نہیں وہ جیسے ہی شہر کی مسجد میں داخل ہوئے تو انکی نظر ایک ایسے شخص پر پڑی جسکے پاؤں نہیں تھے، یہ دیکھتے ہی اللّٰہ رب العزت کے آگے سجدے میں گر گئے اور اللّٰہ کا لاکھ شکر ادا کیا کہ جوتی نہیں تو کیا ہوا پاؤں تو ہیں جبکہ اس بیچارے کے پاؤں نہیں ہیں۔

انسان کے ناشکرے ہونے کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اس نے دنیا کے معاملات میں اپنے سے اوپر والے طبقے کو دیکھنا شروع کر دیا اور دین کے معاملے میں اپنے سے نیچے کو دیکھنا شروع کر دیا حالانکہ اگر ہم سکون اور شکر گزاری والی کیفیت پیدا کرنا چاہتے ہیں تو اس کے برعکس عمل کرنا ہوگا پھر ہمارے اندر شکر کا مادہ خود بخود پیدا ہوجائے گا ان شاء اللہ انسان ترقی کے زینوں کو عبور کرتا رہے گا۔

کیونکہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے : اگر تم میری نعمتوں کا شکر ادا کرو گئے تو میں نعمتوں اور زیادتی کروں گا۔