کسی بھی ملک کی حقیقی ترقی کے پیمانے کو پرکھنا ہو تو کٹھن صورتحال یا چیلنجز کے دوران ابھرنے کی صلاحیت ، ایک بہت بڑی خوبی ہے۔عہد حاضر میں اگر اقوام عالم پر نگاہ دوڑائی جائے تو ہمارے پاس اس حوالے سے بہترین مثال چین کی ہے ، جس نے کووڈ۔19کا دلیرانہ مقابلہ کرتے ہوئے اس آزمائش کو بھی “موقع” میں بدل کر رکھ دیا۔کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کہ دنیا میں سنگین ترین وبائی صورتحال میں بھی چینی معیشت اپنی مضبوط لچک سے ترقی کا سفر جاری رکھ پائے گی اور نہ صرف ملکی ترقی کو آگے بڑھائے گی بلکہ بدترین گراوٹ کی شکار گلوبل معیشت کو بھی مضبوط سہارا دے گی۔اسی سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے ابھی حال ہی میں چین کی قومی عوامی کانگریس کے دوران اہم فیصلے کیے گئے ہیں جن کے عالمی سطح پر بھی دوررس اثرات مرتب ہوں گے۔
اس تناظر میں چین کی جانب سے رواں برس مجموعی قومی پیداوار یا جی ڈی پی کی شرح نمو کے ہدف کو 5.5 فیصد برقرار رکھنے کا ہدف “اعلیٰ معیار” پر مبنی ہے جو صحیح معنوں میں ملک کی “حقیقی ترقی” کا عکاس ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ گزشتہ سال چین کا اقتصادی حجم ریکارڈ تقریباً 18ٹریلین ڈالرز تک پہنچ کا ہے۔چین کے انہی مضبوط معاشی اشاریوں کی بنیاد پر مبصرین کہہ رہے ہیں کہ چین سال 2025 تک امریکہ کو پیچھے چھوڑتے ہوئے دنیا کی سب سے بڑی معیشت بن جائے گا۔مؤثر پالیسی سازی کی بنیاد پر ہی چین کی جانب سے رواں سال متوازن ،معقول اور قابل حصول اہداف کا تعین کیا گیا ہے ۔یہاں اس بات کو بھی سمجھنے اور چین سے سیکھنے کی ضرورت ہے کہ اُس نے اپنے ترقیاتی سفر میں ہمیشہ وقت کے بدلتے تقاضوں اور مروجہ رجحانات کو اہمیت دی ہے اور جدت سازی کا دیرینہ اور پائیدار عمل اپنایا ہے۔زندگی کا کوئی بھی شعبہ اٹھا لیا جائے چین نے اُسے جدید خطوط پر استوار کیا ہے اور اس عمل میں آنے والے ترقیاتی مسائل کو حل کیا ہے۔
موجودہ صورتحال میں انسداد وبا کی ہی مثال لی جائے تو چین نے ملکی سطح پر ایک تسلسل کے ساتھ انسداد وبا اور معاشی و معاشرتی ترقی کو ہم آہنگ کیا ہے ،وبا کی مختلف لہروں اور وائرس کی تغیر پذیری کے مطابق اقدامات ترتیب دیتے ہوئے عوام کی صحت و زندگی،سماجی استحکام اور صنعتی و سپلائی چین کا تحفظ کیاہے اور اس دوران انسداد وبا کے عالمی تعاون میں بھی شریک رہا ہے ۔ چین نے اس ضمن میں بین الاقوامی مشاورت ، تعاون اور تبادلوں کو مثبت طور پر آگے بڑھایا ہے۔ تاحال چین 120 سے زائد ممالک اور بین الاقوامی تنظیموں کو 2.1 بلین سے زائد ویکسینز فراہم کر چکا ہے ۔ اس کے علاوہ چین نے ویکسین کی تحقیق اور ترقی، پیداوار اور تقسیم سمیت مختلف پہلووں میں 20 ممالک کے ساتھ ٹیکنالوجی کی منتقلی اور پیداواری تعاون کیا ہے ۔ یوں چین کے تعاون کی بدولت بیرون ملک ویکسین کی ایک بلین خوراکوں کی سالانہ پیداواری صلاحیت حاصل ہو چکی ہے۔
یہ امر غور طلب ہے کہ چینی حکومت نے اقتصادی ترقی کو فروغ دینے کی راہ میں ہمیشہ عوامی فلاح و بہبود کی ضمانت دی ہے اور عوام کی زندگیوں میں بہتری کو اپنا اولین مقصد ٹھہرایا ہے۔ چین بدستور ایک ترقی پذیر ملک ہے لہذا اسی حقیقت کو مد نظر رکھتے ہوئے رواں سال کے اہم اہداف میں دیہات اور دوردراز علاقوں میں لازمی تعلیم میں سرمایہ کاری کو بڑھایا جائے گا۔اس کے علاوہ بنیادی طبی ضمانت کے معیار کو بلند کیا جائے گا۔حکومت کے نزدیک عوام کے قانونی حقوق و مفادات کو یقینی بنانا ایک عوامی حکومت کی ذمہ داری ہے ۔قومی عوامی کانگریس کے دوران یہ دوٹوک پالیسی بھی سامنے آئی کہ ملک میں اجارہ داری، غیرمنصفانہ مسابقت اورسرمائے کے بے ضابطہ پھیلاو کی مخالفت سے کاروباری اداروں کی مساوی ترقی اورمنصفانہ مسابقت کے لیے سازگار ماحول یقینی بنایا جائے گا ، چین ثابت قدمی سے کھلے پن پر قائم رہے گا، جو نہ صرف چین بلکہ دنیا کے مفادات سے بھی مطابقت رکھتا ہے۔
چین کی اس اہم سیاسی سرگرمی کے موقع پر عالمی صورتحال بالخصوص یوکرین تنازعہ کو بھی مدنظر رکھا گیا۔ چین نے ایک واضح پیغام دیا کہروس اور یوکرین کے درمیان مذاکرات کی راہ میں حائل تمام رکاوٹوں کو دور کرنے کی بھرپور کوشش کی جائے اور موجودہ بحران کے پر امن حل کے لیے تمام کوششوں کی حمایت اور حوصلہ افزائی کی جائے۔چین نے اپنے اس موقف کا اعادہ کیا کہ تمام ممالک کی قومی خود مختاری اور علاقائی سالمیت کا احترام کیا جائے، اقوام متحدہ کے چارٹرکے اصولوں کے مطابق عمل درآمد کیا جائےاور سلامتی کے حوالے سے تمام ممالک کے جائز سکیورٹی خدشات کو اہمیت دی جائے۔ انہی اصولوں کی روشنی میں چین عالمی برادری کے ساتھ مل کر امن کے قیام کے لیے مثبت کردار ادا کرنے کا خواہاں ہے۔یہاں چین نے یہ پیغام بھی دیا کہ وبائی صورتحال کے تناظر میں عالمی معیشت مشکلات کا شکار ہے ،ایسے میں اقتصادی پابندیوں کے منفی اثرات عالمی معیشت کی بحالی پر مرتب ہوں گے جو کہ تمام فریقوں کے لیے نقصان دہ ہے ۔ موجودہ صورتحال کو مزید پیچیدہ ہونے سے بچانا پہلی ترجیح ہونی چاہیے۔
امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات سے متعلق بھی یہ موقف اپنایا گیا کہ چین اور امریکہ کے سماجی نظام، تاریخ و ثقافت اور ترقی کے مراحل میں اگرچہ نمایاں فرق موجود ہے لیکن تعاون کو مرکزی دھارے میں شامل ہونا چاہیے۔دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی اور تجارتی میدان میں ایک مثبت اور منصفانہ مقابلہ ہونا چاہیے۔ان تعلقات کا ایک قابل زکر اور نمایاں پہلو یہ بھی ہے کہ گزشتہ سال دونوں ممالک کے درمیان تجارتی حجم 750 بلین امریکی ڈالر سے تجاوز کر چکا ہے ۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ چین۔امریکہ تعاون میں ترقی کی بے حد گنجائش موجود ہے۔ اگر امریکہ چین کے لیے برآمدات کی پابندیوں میں نرمی کرتا ہے تو دو طرفہ تجارتی حجم میں مزید اضافہ گا، جس سے دونوں ممالک اور عوام کو فائدہ پہنچے گا۔مجموعی طور پر چین کی ملکی پالیسیاں اور عالمی و علاقائی صورتحال سے متعلق مضبوط موقف ایک بڑے اور ذمہ دار ملک کے حقیقی کردار کا عملی ثبوت ہے۔