حقوق نسواں کا عالمی دن بڑےجوش وخروش سے منایا گیا مختلف تنظیمیں جو عورتوں کے حقوق کے لیے زور شور سے سرگرم عمل ہیں سامنے آئیں اور انہوں نے اپنی جلوسوں اور ریلیوں سے خواتین کے مسائل اُجاگر کرنے کی کوشش کی ان میں کچھ دائیں بازو کی تنظیمیں ہیں اور کچھ بائیں بازو کی کچھ مذہبی ہیں اور کچھ لبرل ان سب نے اپنے نکتہ نظر کے مطابق عورت کے مسائل کے حل پیش کیے، ایسا ہر سال ہوتا ہے مگر عورت کے مسائل ختم ہونے میں نہیں آ رہے اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ عورت کے حقوق کچھ بڑے مسائل کے حل سے وابستہ ہیں ان کو حل کرنے کے لئے حکومت اب تک کامیاب نہیں ہو سکی اور یہ مسائل ایسے ہیں جو مستقل توجہ چاہتے ہیں اور ان کے حل کا مستقل بندوبست بھی ضروری ہے ان میں مہنگائی، جہالت، قانون کی بروقت فراہمی اور علاج معالجے کی سہولیات شامل ہیں۔
ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی کا براہ راست اثر خواتین کی زندگی پر پڑتا ہے۔ مرد اپنی ذمہ داریاں پوری کرتے ہوئے محنت و مشقت سے جو کچھ کما کر لاتے ہیں اس میں گھر کے اخراجات پورےنہیں ہو پاتے کیونکہ تنخواہوں میں ہونے والا اضافہ اشیائے صرف کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کا مقابلہ نہیں کر سکتا اس وجہ سے کچھ عورتیں تنگی ترشی سے گزارا کر لیتی ہیں مگر تعلیم یافتہ خواتین کی ایک بڑی تعداد ملازمت یا کاروبار کی طرف مائل ہو جاتی ہے۔ عورت کی ذمہ داریوں میں معاش کی ذمہ داری ایک ظلم ہے عورت پہلے ہی گھر بار بچوں جیسی اہم ذمہ داری سنبھال رہی ہے اس کے ساتھ ملازمت جیسا کٹھن اور تھکا دینے والا کام اس کی گھریلو ذمہ داریوں سے غفلت کا سبب بنتا ہےجس کے نتائج ہمارے سامنے ہیں بچوں کی تربیت کے مسائل ،خاندانی نظام کی تباہی اور طلاقوں کی کثرت میں ایک بڑا ہاتھ عورت کی ملازمت کاہے۔ عورتوں میں یہ احساس پیدا کیا جا رہا ہے کہ وہ اکیلے اپنی بچوں اور گھر بار کی ذمہ داری اٹھا سکتی ہیں کیونکہ وہ بھی کما سکتی ہیں مگر دور کے ڈھول سہانے ہوتے ہیں جب سر پر پڑتی ہے تو اس کے لئے انہیں نبھانا بہت مشکل ہو جاتا ہے اور وہ اپنی فطری ذمہ داری سے جان چھڑانے کی کوشش کرنے لگتی ہے۔
مہنگائی کے ساتھ بڑھتی ہوئی جہالت عورتوں کے مسائل کی سب سے بڑی وجوہات میں سے ایک ہے آجکل معلومات تو عام ہو گئی ہیں مگر تعلیم اور تربیت کا معیار گرتا چلا جارہا ہے اورمعاشرے میں عوام کی اکثریت اپنی دینی اخلاقی اور معاشرتی اقدار سے دور ہو چکی ہے۔ انٹرنیٹ پر تفریح اور آگاہی کے نام پر بے حیائی اور فحاشی کو عام کردیا گیا ہے۔ ہمیں زندگی کس طرح گزارنی چاہیے، اپنے اردگرد رہنے والے افراد سے کیسا رویہ رکھنا چاہیے، رشتہ داروں کے حقوق کیا ہیں، اخلاق تہذیب اور معاشرے کے تقاضے کیا ہیں، یہ سب اچھی تعلیم و تربیت کے ذریعے ہی سکھایا جا سکتا ہے۔ شادی کے ذریعے ایک نئے رشتے اور خاندان کی بنیاد رکھی جاتی ہے جو آگے مزید بہت سے نئے رشتوں کو جنم دیتا ہے، ایک مضبوط خاندان کی تشکیل کرتا ہے حقوق اور فرائض سے بےبہرہ انسان کبھی ان تقاضوں کو پورا نہیں کر پاتا جو ایک خاندان اس سے کرتا ہے اس طرح وہ کمزوروں کی حق تلفی کرتا ہے، گھریلو جھگڑےاور گھریلو تشدد تک نوبت جا پہنچتی ہے۔
اگر ایک شخص خدا خوفی رکھتا ہو میاں بیوی اولاد اور والدین کے حقوق وفرائض سے آگاہ ہو تو یقینا ان سب کے درمیان توازن قائم کر سکتا ہے اور ایک پرامن اور مضبوط خاندان بنا سکتا ہے۔ دینی تعلیمات سے آگاہی اور جہالت کا خاتمہ ایک مضبوط خاندان کی بنیاد ہونے کے ساتھ عورتوں کے گھریلو مسائل کےخاتمےاور بحیثیت بیوی ،ماں، بیٹی، بہن، ان کےحقوق کی ادائیگی کی ضمانت بھی ہے۔
ہمارے ملک میں عورتوں کی ایک بڑی تعداد اپنی گھریلو ذمہ داریوں کے علاوہ اپنے اوپر معاشرے کی ذمہ داری بھی محسوس کرتی ہے اور اپنے گھریلو امورمیں سے وقت نکال کر معاشرے میں درس و تدریس تعلیم و تربیت جیسے شعبوں میں خدمات انجام دیتی ہیں۔ ایسی خواتین ملک و قوم کا سرمایہ ہیں جو اپنی صلاحیتوں کو ناصرف خاندان بلکہ معاشرے کے دیگر افراد کی تعلیم اورتربیت کے لئے بھی استعمال کرتی ہیں ۔ان کی یہ خدمات اس بات کا تقاضا کرتی ہیں کہ انہیں قانون کا تحفظ بھی حاصل ہو۔ گھر سے نکلنے پر انہیں کوئی ہراساں نہ کر سکے اور وہ اپنی حیا اور پردے کو برقرار رکھتے ہوئے اپنی ذمہ داریوں کو ادا کر سکیں ۔
بدقسمتی سے قانون کی بروقت فراہمی نہ ہونے کی وجہ سے معاشرے میں خواتین کے خلاف جرائم میں اضافہ ہوا ہے ہمارا ملک اسلامی ملک ہے جہاں اسلامی قانون کے مطابق عورت کو اپنے مال کو خود خرچ کرنے، باپ کی وراثت میں حصہ، شادی میں مرضی وغیرہ جیسے بنیادی حقوق حاصل ہیں ان قوانین کا صحیح اطلاق عورتوں کے خلاف جرائم کے خاتمہ میں معاون اور مددگار ہوگا۔ عورتوں کو ہراساں کرنے ان کے ساتھ زیادتی کرنے یہاں تک کہ ان پر الزام تراشی کے بارے میں بھی قرآنی قوانین موجود ہیں ان قوانین کا اطلاق عورت میں عدم تحفظ کے احساس کو دور کرسکے گا۔
عورت کو اللہ تعالی نے انسانی نسل کی پیدائش پرورش اور نشوونما کا ذمہ دار بنایا ہے اور ماں کا درجہ دے کر اس کی عزت اور عظمت کو کئی گنا بڑھا دیا ہے ایک ماں نو ماہ مشقت اٹھا کر اپنے خون سے نئی نسل کی آبیاری کرتی ہے بچےکی پیدائش کے بعد رضاعت کا عرصہ بھی جہاد سے کم نہیں ہوتا۔ بچے کی نگہداشت میں دن رات ہمہ تن مصروف رہنا پھر ساری عمر بچوں کی فکر میں گزار دینا ایک ایسا کام ہے جو ماں جیسی ہستی کے علاوہ کسی کے بس کی بات نہیں۔ زچگی کے دوران عورت کو صحت کے کئی مسائل درپیش ہوتے ہیں اور بہت سی عورتیں علاج کی ناکافی سہولیات وجہ سے جان سے گزر جاتی ہیں آج کل کی ترقی یافتہ دور میں بھی ملک کے ہر حصے میں علاج معالجے کی مناسب سہولیات کا میسر نہ ہونا ایک المیہ ہے۔ ہمارا مسئلہ بڑھتی ہوئی آبادی نہیں ہے بلکہ آبادی کے بڑھنے کے ساتھ عوام کے لی زندگی کی بنیادی ضروریات کی فراہمی کا انتظام نہ کرنا ہے۔
بڑھتی ہوئی آبادی بے شک ایک بڑا مسئلہ ہے مگر اس کا علاج ہر گز یہ نہیں ہے کہ آبادی کو کم کرنے کی فکرکریں بلکہ عوام کو زندگی کی بنیادی سہولیات کی فراہمی کا انتظام کرکے اس مسئلے سے بخوبی نمٹا جاسکتا ہے۔ عوام کو صحت کی بنیادی سہولیات فراہم کرنا حکومت کی اولین ذمہ داری ہے۔
عورت کے حقوق کی علمبردار تنظیمیں متحد ہوکر عورتوں کی سماجی معاشی اور معاشرتی حقوق دلانے کے لئےاگر ملک سے مہنگائی، جہالت، لاقانونیت کی روک تھام اور علاج معالجے کی بہتر سہولیات کی فراہمی کے لیے کام کریں اور حکومت وقت کو اس کی ذمہ داریوں کا احساس دلائیں تو امید ہے کہ عورت کے بیشتر مسائل مستقل بنیادوں پر حل ہو جائیں گے۔