8 مارچ کو خواتین کا عالمی دن منایا جاتاہے اسی مناسبت سے یہ موضوع زیر بحث ہے کہ کیا “پاکستانی عورت مظلوم ہےیا نہیں” میں دعوے سے کہتی ہوں کہ واقعی پاکستان میں عورت مظلوم نہیں ہے، میرا مقصد حقائق کو دلائل کے ساتھ بیان کرنا ہے، جو یہ دعویٰ رکھتے ہیں کہ عورت مظلوم ہے وہ نہ صرف شدید غلط فہمی کا شکار ہیں بلکہ حقائق سے بھی بے خبر ہیں۔
خدا جب بیٹی دیتا ہے تو! ایک بگڑا آدمی بھی ایک محبت کرنے والا باپ بن جاتا ہے، جب بیٹی رحمت بن کر آتی ہے تو سایہ دار درخت کی مانند اسکو دھوپ چھاؤں سرد گرم اور زمانے کی اونچی نیچ سے بچا کر رکھتا ہے ، میں نے تپتی دھوپ میں اسی باپ کو بیٹی کے لیے محنت مزدوری کرتے اور اسکی خواہشات کی تکمیل کے لیے اپنی ذات کو فنا کرتے دیکھا ہے۔ بھائی،بہن کی لڑائی میں بہن کا قصور ہوتے ہوے بھی بھائی کو باپ سے ڈانٹ کھاتے دیکھا ہے۔ پاکستانی عورت باپ اور بھائی کے گھر میں شہزادی، شوہر کے گھر میں ملکہ اور بیٹے کے گھر میں چیف جسٹس سے کم اتھارٹی نہیں رکھتی کہ جس کے کیے ہوئے فیصلے تبدیل کروانے کے لیے خود اپنی ہی اولاد کی سفارش کروانی پڑتی ہے۔
پاکستان وہ ملک ہے جہاں اہل خانہ کو ماں کی چوڑیوں کی جھنکار سے زیادہ کوئی اور آواز عزیز نہیں، جہاں ماں کی ڈانٹ کو محبت کا خوبصورت انداز سمجھا جاتا ہے۔ جہاں ماں کی خدمت کو ایمان کا حصہ اور حصول جنت کا زریعہ سمجھا جاتا ہے۔ بیوی کو کمائی کا زریعہ سمجھنے کی بجائے قدرت کا حسین تحفہ اور باعثِ سکون قلب سمجھا جاتا ہےاور بہنوں کے لاڈ اٹھاتے بھائی کبھی گڑیا کبھی چوڑیاں کبھی کھلونے اور کبھی ٹافیاں لاتے نہیں تھکتے۔ جب جوان ہوتی ہے اپنے سایے میں، اپنے ساتھ رکھتے ہیں۔ ڈرائیونگ تو سکھا دیں گے مگر ڈراپ کرنے ہر جگہ خود جاتے ہیں۔
وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوز دروں
عورت کو مظلوم سمجھنے والوں کو سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا نے مغالطے میں ڈال رکھا ہے جو بغیر تحقیق کیے محض ریٹنگ کے چکر میں ہر خبر بغیر تحقیق کے لگا دیتے ہیں۔ مینار پاکستان جیسے نا خوشگوار اور من گھڑت واقعہ سے آپ پاکستانی عورت کی مظلومیت کے غلط اندازہ نہیں لگا سکتے، نہ ہی نور مقدم کیس جیسے واقعات آپ کی صحیح راہنمائی کر سکتے ہیں، نہ شرمین عبید چنائے کی خود ساختہ ڈاکومنٹریز آپ کو بھٹکا سکتی ہیں اور نہ وہ ڈرامہ باز ملالہ یوسف زئی آپ کو گمراہ کر سکتی ہے۔
یہ سب واقعات تو میرے دشمن کی میرے وطن کا اصل چہرہ چھپانے کی سازشیں ہیں۔ اصل چہرہ دیکھنا ہو تو آیئے دیکھیں ہمارے گھروں کے اندر خاندانی نظام میں ایک عورت کا کیا مقام و مرتبہ ہے، گھر کی ملکہ ہونے کے ناطے مرد اسکی تمام ضروریات کو پورا کرنے کا ذمہ دار ہے وہ کما کر لاے اور عورت کے ہاتھ پر رکھے پھر عورت اس کمائی کو اپنے جنت جیسے گھر کو سنوارنے سجانے کی ذمہ دار ہے۔
عورت کو مظلوم کہنے والی نام نہاد این جی اوز نے کبھی ایک نظر مغربی خاندانی نظام پر ڈالی ؟ کہ جہاں عورت کو مرد کے شانہ بشانہ کمائی کر کے گھر چلانا اور اضافی طور پر بچوں کو پیدا کرنا اور انکو پالنا بھی پڑتا ہے۔ بازاروں ،دفاتر اور دیگر تمام تقریبات میں وہ مرد کی ہوس ناک نگاہوں کی تاک میں بھی رہتی ہے۔ اور اتنی محنت کے باوجود کسی وقت بھی مرد کا دل بھر جانے کے بعد گھر سے نکالی بھی جا سکتی ہے۔ بڑھاپے میں اسی مشینی جدید معاشرے کی پروردہ اولاد اسکو اولڈ ہومز میں چھوڑنے پر مجبور ہے۔
شمع محفل بن کے کھو دیا وقار اپنا ! کے مصداق آج دنیا کی مظلوم ترین عورت مغرب کی عورت ہے۔ میرے معاشرے میں ایسے اولڈ ہومز کا کوئی تصور نہیں، یہاں تو دادی کی پری کی کہانیوں کے بغیر پوتے پوتیوں کو نیند نہیں آتی، یہاں دادا جان کی لاٹھی کی آواز پر سب ایک قطار میں کھڑے ہو جاتے ہیں۔ان نام نہاد این جی اوز کو اپنے نظریات دریا برد کر کے نکلنا چاہیے اور آج میں قرآن ہاتھوں میں اٹھائے مغرب کو یہ کہنا چاہتی ہوں کہ اپنی عورت کو بنیادی انسانی حقوق اور تحفظ دو ۔ اور انہیں خوش فہمیوں کے لالی پاپ دے کر انکا استحصال کرنا بند کرو۔