ہم نے نو گیارہ کے تناظر میں جس نئے نظامِ جہاں “نیو ورلڈ آرڈر” کی بازگشت سنی اور پھر بتدریج اس نظام کو دنیا میں پھلتے پھولتے بھی دیکھا، اس نظام کی داغ بیل دراصل اسّی کی دھائی میں افغانستان میں روس کی شکست کے ساتھ ہی ڈالی جاچکی تھی. اس نئے نظام کا بنیادی عنصر امریکہ کا دنیا کی واحد سپر پاور کی حیثیت سے تسلیم کیا جانا تھا. امریکہ اور اس کے قریبی اتحادی جنہیں مغربی بلاک کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے، اس نئے نظام میں دنیا پر بلا روک ٹوک راج کرتے رہے.
اسلامی ممالک جو اس سے قبل واضح طور پر دو بلاکوں میں بٹے ہوئے تھے، ان میں سے چند مستثنیات کے علاوہ زیادہ تر اس نئے نظام میں امریکہ کے قریب آگئے. یہاں تک کہ مصر اور شام جیسے ممالک جو ایک عرصے تک روس مخالف امریکی کیمپ میں پیش پیش رہے تھے، وہ بھی چڑھتے سورج کے پجاری بن گئے. دیگر مسلم ممالک جن میں عراق اور لیبیا شامل ہیں “رجیم چینج” کی پالیسی کے تحت براہِ راست یا بلواسطہ فوجی کارروائیوں کے نتیجے میں اپنی مغرب مخالف سمت سے دستبردار ہوئے اور نئے نظام کے تحت چلنے والی یونی پولر دنیا کے رنگ میں رنگ گئے.
یوں معلوم ہوتا ہے کہ یوکرائن پر روسی حملہ دنیا کے لیے ایک بار پھر بدلتے ہوئے نظام کی ابتداء ثابت ہوگا. اس تبدیلی کے آثار تو کچھ عرصے سے رونما ہونا شروع ہوگئے تھے. جس کی سب سے واضح نشانی تو چین کا ایک بڑی عالمی طاقت کے طور پر ابھرنا تھا، جو اپنی فوجی طاقت سے زیادہ اپنی اقتصادی قوت اور تجادتی برتری کے سبب دنیا پر چھاتا چلا گیا. ساتھ ہی روس نے بھی اپنی سپر پاور کی کھوئی حیثیت کو دوبارہ بھال کرنے میں خاصی کامیابی حاصل کی. جس کے نتیجے میں ایک طرف تو اس کے پرانے اتحادی جیسے شام جس کی موجودہ حکومت کی روس نے بُرے وقتوں میں مدد کی، دوبارہ اس کے اتحادی بن گئے تو دوسری جانب کئ اور مسلم ممالک جن میں ترکی اور پاکستان شامل ہیں جو ایک عرصے تک امریکہ اور مغرب کے بہت قریب رہے ہیں، اب روس کی مخالفت کی راہ کو ترک کر چکے ہیں. ایران نے تو اپنی روش انقلاب کے بعد پہلے ہی تبدیل کر لی تھی. مزید یہ کہ مشرق وسطیٰ کے اہم ممالک جن میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات شامل ہیں ایک طرف تو چین سے اپنے تعلقات اور تجارت کو بہت بلند سطح پر لے جا چکے ہیں اور دوسرے یہ کہ روس سے تیل اور گیس کی تجارت میں مفادات کا اشتراک انہیں روس کے قریب لے آیا ہے. یوکرین تنازعہ میں متحدہ عرب امارات کا سلامتی کونسل میں روس کے خلاف قرارداد کی حمایت نہ کرنا، مشرقِ وسطیٰ میں روس کے بڑھتے ہوئے اثر کی نہیں تو کم از کم مذکورہ ممالک میں ایک غیر جانبدارانہ پالیسی کے طرف رجحان کی نوید سناتا ہے.
ایسے حالات میں اگر مسلم دنیا کی قیادت اس بدلتے ہوئے نظامِ جہاں کے لیے اگر کسی مشترکہ لائحہ عمل کو اپنانے میں کامیاب ہو جاتی ہے، جس کی امید ماضی کے تلخ تجربات اور آپس کی مخالفت و مخاصمت کے باوجود نظر آرہی ہے، تو یہ ایک بہت خوش آئند پیش رفت ہوگی. اسلامی دنیا کو او. آئی. سی. کے تحت ایک ایسے پلیٹ فارم پر جمع کرنے کا یہ ایک اچھا موقع ہے، جس میں یہ ممالک پچھلی صدی کی غیر جانبدار تحریک کی طرح کے روپ میں ایک مضبوط اکائی کے طور پر سامنے آ سکتے ہیں اور دنیا میں اپنی کمزور حیثیت سے نجات حاصل کر سکتے ہیں.